پاکستانی ساٹھ فیصد نوجوانوں کی کیا پالیسی ہے؟

316

موجودہ دور میں وہ ممالک بہت خوش قسمت ہیں۔ جن کے پاس یوتھ کی طاقت موجود ہے۔ الحمدللہ، پاکستان بھی نوجوان جواہر میں ساٹھ فیصد طاقت کا حامل ملک ہے۔ اس کے باوجود ہم ترقی کی راہ پر درست خطوط پر گامزن نہیں ہو سکے ہیں۔ پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں اب تک تقریباً سترہ کروڑ لوگوں کے پاس موبائل فون کے کنکشن ہیں۔ پچھلے ایک سال میں موبائل فون کا استعمال کرنے والوں میں ستر لاکھ لوگوں کا اصافہ ہوا ہے۔ ہمارے ملک کے بچے آن لائن گیمز کھیلتے ہیں۔ اب جس گھر میں جائیں نوجوان نسل پب جی گیمز میں سر ڈالے ہوئے ہے۔ پھر یہی نوجوان لڑائی جھگڑا کرنے کی منفی سرگرمیوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ ان ہی گیمز کا شاخسانہ ہے کہ نوجوانوں کے رویوں میں خلط ملط آتا ہے۔ پھر نت نئے ایشوز کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ذہنی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اگر یہی بچے اپنا ٹائم کھیلوں کے میدان میں گزاریں تو نتیجہ مختلف ہو گا۔ موبائل فون سے پہلے کھیل کے میدانوں میں نوجوان تعلیم سے فراغت کے لمحات گزارتے تھے۔ کھیلوں کا حصہ بنتے تھے۔ ان کے رویوں میں اخلاقی پاسداری تھی۔ آگے بڑھنے کی امنگ تھی۔ یہاں پر مجھے قائد اعظم محمد علی جناح کی بات یاد آ گئی۔ ہمارے عظیم قائد کو کھیلوں سے بہت پیار تھا۔ کیونکہ کھیل قوم بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ہم میں سے کوئی شخص ایک گھنٹہ پان سگریٹ کی دکان کے باہر کھڑے رہ کر خود اندازہ لگا سکتا ہے کہ زیادہ تر نوجوان طبقہ ہی ہے جو اس دکان کا رخ کرتا ہے۔ جن کی عمریں پندرہ سے پچیس سال تک ہوتی ہیں۔ وہ سگریٹ لینے آتے ہیں۔ سگریٹ لی، دکاندار کی ماچس یا لائٹر سے سلگائی۔ ان میں کئی نوجوان ایسے ہوتے ہیں۔ جو سگریٹ کے ساتھ تمباکو والے پان، میٹھی سپاری اور گٹکا کھانے کا شوق بھی پورا کرتے ہیں۔ غٹاغٹ بوتل بھی پی رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران ان کی باتوں کا موضوع لڑکیاں ہوتا ہے۔ بدمعاشی کا شوق، اسلحہ کی شوخیاں، بد تمیزی، ہلڑ بازی، گالیاں پھر لڑائی۔ شو آف۔ ان کو دیکھ کر کوئی بھی ذی شعور یہ سوچ سکتا ہے۔ سگریٹ کارنر پر ہمارے سامنے جس قماش کے نوجوان ہیں۔ کیا ان کے ہاتھ میں پاکستان کا مستقبل ہے۔
سب جانتے ہیں کہ یہی بچے پہلے شیشے سے شروع ہوتے ہیں، پھر عام سگریٹ، پھر چرس، پھر آئس، پھر ہیروئن تک جا پہنچتے ہیں۔ نشے کے انجکشنز کی علت میں بھی پھنس کے رہ جاتے ہیں۔ جب پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو جرائم کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ یوں کسی گھر کا چشم و چراغ ایک روز اشتہاری کہلاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی نشہ، اسلحہ، سیاست پہنچ چکی ہے۔ جبکہ ایک طالبعلم کا ان چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ نوجوان کو دوران تعلیم اپنی تعلیمی مصروفیات اور کھیلوں کی سرگرمیوں کوہی وقت دینا چاہئے۔
والدین کو خصوصی توجہ بچوں پر مرکوز کرنی چاہئے۔ مہنگے سکول میں اپنے بچوں کو ایڈمیشن دلوانا اسٹٹس بن چکا ہے۔ بڑی فیسیں بھری جاتی ہیں۔ تعلیم کے نام پر یہ بے جا اخراجات پورے کرنا ہی والدین کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ادب، تمیز، تہذیب سکھانا مذہب کی جانب راغب کرنا اخوت و رواداری کا سبق دینا مطلب اچھا انسان اور سچا مسلمان بنانا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔۔۔
کہتے ہیں اگر کمرہ کتاب کے بغیر ہو تو ایسا ہے کہ جسم روح کے بغیر ہے۔ میں تمام میچیورڈ، سمجھدار لوگوں کے ساتھ نوجوانوں سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ہم نے بچوں کو کتاب پڑھنے کا شوق کیوں نہیں دیا ہے۔ ان کو مہنگے موبائل تو لے دیتے ہیں مگر کتاب کے مطالعے کا شغف نہیں دیا۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 9 فیصد لوگ کتاب پڑھتے ہیں۔ جبکہ 75 فیصد لوگ سلیبس کی کتاب سے باہر نہیں نکلتے ہیں۔ وہ صرف امتحان پاس کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ ستر اور نوے کی دہائی میں پبلک لائبریری اور بک شاپ پر لوگ شوق سے جاتے تھے۔ اب ٹیکنالوجی کے استعمال سے ڈیجیٹل کتاب پرھنے کے بجائے گیمز اور ٹک ٹاک پر ٹائم گزارا جاتا ہے۔ ایسا کیا کیا جائے کہ پاکستانی نوجوان کو فضول سرگرمیوں سے ہٹا کر مثبت سرگرمیوں کی طرف لایا جا سکے۔ ان کو ایسے کس کام پر لگایا جائے۔ ان کا وقت بھی بہترین گزرے۔ یہ منفی دھندوں سے دور رہیں۔
گزشتہ دنوں پندرہ جولائی کو نوجوانوں کا ہنر مندی کا عالمی دن منایا گیا تھا۔ میں نے گورنمنٹ ٹیکنیکل ویمن کالج کے پروگرام میں شرکت کی۔ جس میں صوبائی سطح پر پوزیشن لینے والے طلبا و طالبات میں انعامات تقسیم کیے گئے۔ نوجوانوں کے ہنرمندی کے عالمی دن کے موقع پر طالبات کے ہاتھوں سے بنے مختلف فن پاروں کی خوبصورت نمائش کا ربن کاٹ کر افتتاح کیا گیا۔ اس موقع پر پرنسپل گورنمنٹ ٹیکنالوجی کالج برائے خواتین سمیرا صالحہ اور دیگر اساتذہ و منتظمین نے بچوں کا حوصلہ بڑھایا۔
سب سے بنیادی طور پر حکومتی سرپرستی میں بچوں کو برسر روزگار بنانے کے لیے ورچوئل اسسٹنٹ کے آن لائن پروگرام شروع کیے گئے۔ جو امیزون کے ساتھ منسلک تھا۔ جس سے سیکڑوں بچے فری ٹریننگ کے بعد لاکھوں روپے گھروں میں بیٹھ کر کما رہے ہیں۔ جس سے انکو روزگار فراہم ہو رہا ہے۔ اس طرح کے بہت پروگرام گورنمنٹ شروع کر رہی ہے تاکہ ہنر کے ذریعے لوگ روزگار کما سکیں۔
موجودہ حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں نوجوانوں کی ترقی کے خصوصی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ پڑھے لکھے اور ہنرمند نوجوانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ نوجوانوں میں منفی سرگرمیوں کے بجائے مثبت رجحانات کو فروغ دینا ہو گا۔ والدین، اساتذہ کرام، سیاسی سماجی اسٹیک ہولڈرز کسی کمی کوتاہی کے سبب بگڑنے والے بچوں کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ جس روز سگریٹ کی دکانیں، بک اسٹالز میں تبدیل ہو گئیں۔ پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا کہ نوجوانوں کا فعال کردار ہی قومی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ اس ملک کے ساٹھ فی صد نوجوان پاکستان کا روشن مستقبل اور ہماری امید ہیں۔

تبصرے بند ہیں.