اس ہفتے جوہر ٹاؤن لاہور میں ہونے والے کار بم دھماکہ نے لاہور کے سکیورٹی حصار کے فول پروف ہونے کا تصور ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔ یہ دھماکہ دہشت گردی یا خود کش حملے حملے سے کہیں زیادہ خطرناک تھا کیونکہ اس میں 30 کلو بارود لاہور جیسے حساس ترین شہر کے اندر پہنچایا گیا ہے اور یہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اس میں طریقہ واردات کو کئی لحاظ سے Improve کیا گیا ہے۔ یہ دہشت گردی کا کوئی اندھا دھند حملہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا پلان تھا جس کا ہدف مقرر تھا۔ اس کی تاریخ بھی مقرر تھی جو کہ بہت اہم ہے ۔ یہ دھماکہ کرنے کے لیے ایسے دن کا انتخاب کیا گیا جس دن پاکستان کے FATF کی گرے لسٹ سے خارج ہونے کا امکان تھا۔ اس میں جس شخصیت کو نشانے پر رکھا گیا اس کا نام FATF میں متواتر گونجتا ہے کہ یہ تنظیم منی لانڈرنگ اور فنڈز کی غیر قانونی ترسیلات کی وصول کنندہ ہے۔ یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس میگا واردات کو FATF اجلاس کی تاریخ سے کیوں لنک کیا گیا۔ جرم کے سدباب کے لیے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی ناپنے کے 3 پیمانے ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ذریعے مجرم کو واردات سے پہلے ہی پکڑ لیا جائے اور منصوبہ ناکام بنا دیا جائے۔ دوسرا یہ ہے کہ اگر انٹیلی جنس کے ریڈار سے مجرم بچ نکلنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو سکیورٹی انتظامات اتنے الرٹ ہوں کہ دہشت گرد اپنا ہدف حاصل نہ کر سکیں۔ تیسرا اور آخری یہ ہے کہ واردات کے بعد مجرموں کا پتہ لگانا اور انہیں گرفتار کرنا۔ اس واقعہ میں انٹیلی جنس Failure ہوا ہے اور قبل از وقت کوئی الرٹ جاری نہیں ہوئی البتہ اچھی بات یہ ہے کہ سکیورٹی کی وجہ سے ہدف حاصل نہیں ہوا اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ مرکزی سہولت کار کو پکڑ لیا گیا اور پیٹر پال ڈیوڈ کی گرفتاری کے ساتھ ہی عید گل نامی وہ بندہ بھی پکڑا گیا جس نے بارود سے لوڈ گاڑی اس جگہ پارک کی تھی۔ مزید گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس واقعہ کا ملا جلا نتیجہ ہے ۔ ملزمان ٹارگٹ تک پہنچنے میں بلا روک ٹوک کامیاب ہو گئے تھے مگر خوش قسمتی یہ ہوئی کہ ہدف بال بال بچ گیا۔ ملزم موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب رہے مگر ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل تحقیقات نے انہیں بروقت بے نقاب کر دیا۔
جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں اس کے مطابق سیف سٹی کیمروں، جیو فینسنگ اور ہوٹلوں کی ڈیجیٹل ریکی کے سسٹم کی وجہ سے پیٹر ڈیوڈ پولیس کے جال میں پھنس گیا۔ اس کی گرفتاری محض شک کی بنا پر ہوئی۔ ایجنسیوں نے جیو فینسنگ اور ہوٹل ڈیٹا میں رابطہ سامنے آنے پر پیٹر ڈیوڈ کو لاہور سیکرٹریٹ کے علاقے میں واقع ہوٹل سے گرفتار کیا جس سے حاصل ہونے والی معلومات کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کی نشاندہی پر جو گرفتاریاں ہوئی ہیں، ان میں عید گل کو پنڈی سے پکڑا گیا۔ اس کے بھائی بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ سجاد نام کا ایک مشتبہ رابطہ کار بھی گرفتار ہے۔ پیٹر کی ایک گرل فرینڈ جو ہوٹل میں اس کے ساتھ شب بسری کر چکی تھی جس کا نام کرن شاہ بتایا جاتا ہے جو کہ ریواز گارڈن کی رہائشی ہے وہ اور اس کا بھائی عرفان شاہ بھی پکڑے جا چکے ہیں مگر دہشت گردی سے ان کا براہ راست تعلق ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
پیٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ واردات میں استعمال ہونے والی کار اس نے پنڈی بھٹیاں سے خود خرید کر عید گل کے حوالے کی۔ گاڑی کوبارود سے بھرنے کا مرحلہ مبینہ طور پر لاہور کے اندر سر انجام دیا گیا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ گاڑی کو موٹر وے ٹول پلازہ پر چیک کر کے کلیئر کیا گیا تھا۔ البتہ پیٹر کا اپنے نام سے گاڑی خریدنا اس کے غیر تربیت یافتہ ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کا ہوٹل میں قیام کرنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ بہت زیادہ محتاط نہیں تھا۔
پیٹر ڈیوڈ ایک اوورسیز پاکستانی ہے جو دوبئی میں سکریپ اور ہوٹل کے کام سے وابستہ رہا ہے۔ یہ سب سے اہم معلومات ہیں ۔ دوبئی ہوٹل انڈسٹری میں شراب اور ناچ گانا کھلے عام ہے ، جسے قانونی حیثیت حاصل ہے۔ برصغیر خصوصاً انڈیا اور پاکستان کی انڈر ورلڈ کے لوگ دوبئی ہوٹل انڈسٹری کے بہت بڑے گاہک ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پاکستانی اور انڈین لوگوں کی آپس میں جان پہچان اور تعلقات بنتے ہیں۔ جب دونوں ملکوں کے 2نمبر لوگ آپس میں ملتے ہیں تو باہمی مفادات اور مشترکہ دلچسپیوں کی بنا پر دوستیاں زیادہ گہری ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ نقطہ ہے جس کی بنا پر انڈین خفیہ ایجنسی RAW نے دوبئی کو اپنا گڑھ بنایا ہوا ہے۔ ’را‘ نا صرف مڈل ایسٹ کے میزبان ممالک کی جاسوسی کرتی ہے بلکہ وہاں سے پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹ بھرتی کرنا اور انہیں پاکستان بھیجنا آسان ہے۔ پیٹر ڈیوڈ کو اسی طریقے سے اپنے ساتھ ملایا گیا اور اس پر ہیوی انوسٹمنٹ کی گئی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اب وقتی طور پر پیٹر ڈیوڈ کو بھیجنے والے دوبئی سے کچھ عرصہ کے لیے روپوش ہو جائیں گے۔ ان کی جگہ نئے لوگ انڈیا سے لیبر ویزا پر وہاں چھوڑ دیئے جائیں گے کسی کے پاس بال کاٹنے کا کسی کا ویٹر کا ، کسی کا ڈانسر کا ویزا ہو گا مگر یہ لوگ RAW کے تربیت یافتہ لوگ ہوتے ہیں جن میں خوبرو لڑکیاں بھی ہوتی ہیں جو معلومات کے بدلے اپنا سب کچھ پیش کرتی ہیں۔ یہ باتیں بہت پرانی ہو چکی ہیں کہ انڈین حکومت منظم انداز میں اپنے سفارتی ویزوں پر بھی RAW کے ایجنٹوں کی ان ممالک میں تعینات کرتی ہے۔
اس واردات سے پاکستان کو پیغام دیا گیا ہے کہ انڈین خفیہ ایجنسی حافظ سعید کے Whereabouts سے واقف ہے۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ لاہور فول پروف نہیں ہے۔ تیسرا پیغام یہ ہے کہ اس طرح کی کارروائی دہرائی جا سکتی ہے۔ اگر حافظ سعید ہدف نہ ہوتا تو شاید یہ مفروضہ قائم کرنا آسان تھا کہ یہ افغان طالبان نے پاکستان کو امریکی اڈے نہ دینے کے ضمن میں انتباہ کیا ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ پیٹر ڈیوڈ جو کہ ایک پاکستانی ہے۔ اس نے اپنے ہی ملک کی سالمیت پر حملہ کیا ہے اور یہ کام اس نے جان بوجھ کر پیسے کے لالچ میں سر انجام دیا ہے۔ ابھی تک اس واردات کا ماسٹر مائنڈ سامنے نہیں آیا آنے والے چند روز میں آئی جی پنجاب کے جانب سے ایک ہائی پروفائل کانفرنس متوقع ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے واقعہ کے باوجود پاکستان کے فارن آفس نے رسمی بیانات کی حد تک RAW کے ملوث ہونے کا الزام دیا ہے پاکستان کو اس موقع کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے اقوام متحدہ ، امریکہ، اور عالمی دنیا سے احتجاج کرنا چاہیے تھا ۔ کم از کم اسلام آباد میں ڈپلومیٹک کور کے غیر ملکی سفیروں کو بلا کر اپنا کیس ان کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.