بجٹ کی منظوری اور معیشت کی حالت زار

166

بجٹ برائے مالی  سال 2021-22… 138 کے مقابلے میں 172 کی کثرت سے منظور کر لیا گیا ہے… اس سے قبل اپوزیشن کئی ہفتوں سے شور مچا رہی تھی اس مرتبہ کسی صورت میں بجٹ منظور نہیں ہونے دیا جائے گا… بظاہر حکومت کو بھی کئی خدشات لاحق تھے مگر جیسا کہ منگل 29 جون کو قومی اسمبلی میں ہونے والی کارروائی بتاتی ہے حکومت نے اس پل کو نسبتاً آسانی کے ساتھ عبور کر لیا اب اپوزیشن خاص طور پر مسلم لیگ (ن) جس کے قائد شہباز شریف سمیت ارکان کی قابل ذکر تعداد بجٹ کی منظوری کے فیصلہ کن مرحلے پر موجود نہ تھی، جتنی چاہے وضاحتیں پیش کرتی رہے اور حکومتی ارکان طنزو استہزاء کے تیر برساتے رہیں مگر حقیقت نفس امری یہ ہے پاکستان کی 74 سالہ تاریخ کے دوران ہر حکومت نے خواہ وہ کتنی کمزور یا غیرمقبول تھی، اپنی اپوزیشن کی تمام تر دھمکیوں شور شرابے اور بائیکاٹ کے باوجود بجٹ کو منظور کرا لیا اور خود کو با آسانی اس چیلنج سے بچا کر لے گئی یہی موجودہ حکومت کے ساتھ ہوا… بجٹ کو قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت منظور نہ کریںتو آئینِ مملکت کی رو سے حکومت دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے مگر جیسا کہ تاریخ پاکستان کے اوراق گواہی دیتے ہیں ہمارے یہاں کئی حکومتیں جائز یا ناجائز وجوہ کی بنیاد پر یعنی بزور طاقت اٹھا پھینکی گئیں مگر ہر ایک نے وہ جیسی بھی مضبوط یا کمزور تھی اپوزیشن کی تمام تر دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اراکین اسمبلی کی اکثریت سے مہر تصدق ثبت کرا لی… یہی کچھ موجودہ حکومت اور اس کی اپوزیشن کے ساتھ ہوا ایک ہی تاریخ ہے جو گزشتہ پون صدی سے اپنے آپ کو دہراتی چلی آ رہی ہے… اسی طرح ہر حکومت کے وزیر خزانہ اور اس کے سربراہ خواہ وہ صدر ہوتا تھا یا وزیراعظم نے بجٹ پیش کرتے وقت نعرہ بلند کیا کہ ماضی کی حکومتوں نے جو کیا سو کیا لیکن ہمارا موجودہ بجٹ ملک کی معیشت اور عام آدمی کی زندگی کی کایاپلٹ کر رکھ دے گا… اس ’’عظیم تبدیلی‘‘ کا آغاز ہو جائے گا اور ہم غیرملکوں کی امداد سمیت بیرونی مالیاتی اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈبنک ہیں کی جکڑبندیوں سے نجات حاصل کر لیں گے لیکن ایسا بھی کبھی نہیں ہوا… حکومت وقت کے تمام تر وعدوں اور دعاوی کے باوجود کسی ایک بجٹ نے بھی ملکی معیشت کو ایسی پٹڑی پر ڈال کر آزادی اور معاشی خودمختاری کی منزل کی جانب رواں نہیں کیا جس کے نتیجے میں ہم غیرملکی امداد اور ان کی کڑی شرائط کے رہینِ منت نہیں رہے یا کسی ایک مرتبہ بھی بیرونی مالیاتی اداروں کی جکڑ بندی سے آزادی حاصل نہ کر پائے… انہوں نے ہمیشہ ہماری معیشت کا گلا دبوچے رکھا… کبھی ہم سے کڑی شرائط پوری ہوئیں کبھی نہیں لیکن کسی ایک بھی بجٹ یا حکومت وقت کی معاشی و اقتصادی پالیسی کے نتیجے میں ان اداروں کے تسلط سے نجات حاصل ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہو ایسا کبھی نہیں ہوا نتیجہ اس کا یہ سامنے آیا ہے کہ حکومت وقت نے معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور عام آدمی کو غربت سے نجات حاصل کرانے کے جتنے چاہے دعوے کئے ہوں کبھی کوئی پورا نہیں ہوا… پاکستانی معیشت کی گاڑی جس طرح پہلے لڑکھڑا کر چلتی تھی اسی طرح اب بھی دوسروں کے سہارے ’’رواں دواں‘‘ ہے…
سبب اس کا ہماری قومی یا پون صدی کی ملکی تاریخ میں ہم پر مسلط رہنے والی اشرافیہ کی اس ناکامی کا کیا ہے… کیا پاکستان کے اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر میں ایسا کوئی بنیادی نقص رہ گیا ہے جو اس کی قوت نمو میں اضافہ نہیں ہونے دیتا یا کوئی ایسی اکاس بیل ہے جو ہمارے شجر معیشت کو چمٹ کر رکھے ہوئے جس کی وجہ سے اس کا سوکھا پن دور نہیں ہوتا… یا تمام کی تمام حکمران اشرافیہ پرلے درجے کی نااہل ثابت ہوئی ہے جس کے لیے وقت ٹپائو اقدامات ہی ذریعہ نجات کا درجہ رکھتے ہیں… اصل سبب کو جاننے کے لئے ہماری اقتصادی تاریخ اور صورت احوال واقعی کی جتنے گہرے اور غیرجانبدارانہ تجزیے کی ضرورت ہے وہ کبھی نہیں کیا گیا… اس امر نے ہمیں ہمیشہ 
اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور قوم کے سامنے ایسے کھوکھلے وعدے کرنے اور نعرے لگانے پر مجبور کیا ہے جس کے حاصل کے طور پر ہماری معیشت تنزل کا شکار اور غیروں کی غلامی کی محتاج چلی آ رہی ہے نتیجتاً عام آدمی کی زندگی میں انقلاب لانے کے جتنے وعدے کیے گئے سب کے سب بے بنیاد اور کھوکھلے ثابت ہوئے… وگرنہ پاکستان کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ اعلیٰ درجے کی افرادی قوت رکھتا ہے اس کی آبادی میں جواں عمر اور کام کرنے کے قابل افراد کا تناسب بچوں اور بوڑھوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جنہیں اگر تمام کے تمام کو اعلیٰ تعلیم اور ہنرمندی سے آشنا کر دیا جائے تو ان کا پیتل سونے میں تبدیل ہو سکتا ہے… آبی وسائل کی کمی نہیں اور دنیا کے بہترین آبپاشی نظاموں میں ایک ہمارے یہاں پایا جاتا ہے… زرخیز زرعی زمین کا تحفہ قدرت نے ہمیں دے رکھا ہے اور قیام پاکستان کے پہلے پندرہ اٹھارہ برس میں ہم نے صنعتکاری کے میدان میں وہ کمالات دکھائے تھے کہ ایک دنیا حیرت کے ساتھ ہماری طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئی تھی… مگر پھر چند وجوہ کی بنا پر زوال نے کچھ اس طرح ہمارے حکمرانوں کی صلاحیتوں کو ان کی ناقص ترین پالیسیوں کی وجہ سے زنگ آلود کر کے رکھ دیا کہ سرمایہ کاری روٹھ سی گئی اور اس کا کلچر اکھڑ کر رہ گیا… صنعت کا پہیہ اس طرح رواں دواں نہ ہو سکا جیسا کہ درکار تھا… ورنہ پہلے 15 سال تاریخ میں کئی صنعتی گروپس نے اپنے اپنے میدان میں ایسی کامیابی حاصل کی تھی کہ اگر 1972 کی بھٹو صاحب کی قومیانے کی پالیسی نے ان کے خیمے اکھاڑ نہ پھینکے ہوتے تو ماہرین کی رائے ہے آج ان میں سے سب نہیں تو دوچار ضرور ایسی ہوتیں جنہیں Multi Nationals کا درجہ حاصل ہوتا…
ہمارے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کے غیرپیداواری ہونے کی ایک بڑی وجہ وہ جاگیرداری نظام ہے جس نے زرعی معیشت جو ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھی ہے کو بری طرح انجماد کا شکار کر رکھا ہے… اس گلے سڑے نظام کی خرابیوں بلکہ مفاسد سے ہر کوئی آگاہ ہے… لچھے دار تقریریں ہوتی ہیں انتخابات کے موقع پر نعرے لگائے جاتے ہیں… بڑے بڑے سیمینارز میں اس کے خاتمے کے لئے نت نئی تجاویز پیش کی جاتی ہیں لیکن یہ صدیوں پرانی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی جگہ موجود چلا آ رہا ہے… آبپاشی کا اگرچہ ہماری پانچ دریائوں کی سرزمین پر قدرت کا عطا کردہ بہترین نظام ہمیشہ سے موجود رہا ہے مگر انگریزوں نے اسے نہروں کے نظام سے آراستہ کر کے ہماری زمینوں کو جس طرح لہلہاتی فصلوں سے آباد و شاد کیا تھا اسے ہم مزید ترقی کی راہوں پر ڈال نہیں سکے نہ اس کے متعلقہ شعبہ جات میں جدید ٹیکنالوجی کے زیور سے آراستہ کیا جا سکا ہے جس کی بنا پر یہ اس وقت سخت درجے کی فرسودگی کا شکار ہو گیا ہے… آج ہماری حالت یہ ہے کہ قیام مملکت کے بعد بھارت کے ساتھ تین دریائوں کا سودا کر کے اور ورلڈ بنک کی امداد کے تحت منگلا اور تربیلا جیسے ڈیم تو بنا لیے (جو اپنی عمر پوری کر چکے ہیں) مگر کالا باغ ڈیم جو خالصتاً اپنی قومی منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کرنا تھا اسے چند سیاسی و علاقائی وجوہ کی بنا پر اس حد تک متنازع بنا دیا گیا ہے کہ اس کے حامی کسی سیاستدان یا حکمران کے لئے اس کا نام لینا بھی گناہ کے درجے سے کم نہیں… ایک امر جس نے ہماری معیشت کو صحیح معنوں میں نمو نہیں پانے دی وہ ایک کے بعد دوسری برسراقتدار آنے والی مختلف حکومتوں کی نیم دلانہ کوششوں سے قطع نظر ٹیکس کلچر کو فروغ دینے میں ناکامی ہے… ٹیکس نہ دینا اور اس سے اپنی دولت کو بچا کر رکھنے کی ہرممکن کوشش اور قومی خزانے کو غیروں کا محتاج بنا کر رکھنے کی ذہنیت نے ہماری معیشت کو کھوکھلا کرنے میں منفی کردار ادا کیا ہے… اس کی کئی وجوہ بیان کی جاتی ہیں لیکن بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہمارے افرادِ قوم ٹیکس ادا کرنے کی قومی اور ملی ذمہ داری سے اجتناب کی راہ اختیار کرنے کو اکثروپیشتر ذاتی فخر کا باعث سمجھتے ہیں… اس نام نہاد کامیابی کا عام محفلوں میں ذکر کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرتے… نتیجے کے طور پر ان کی اپنی تجوریاں بھاری ہونے میں دیر نہیں لگاتیں مگر قومی خزانے کی حالت پتلی رہتی ہے… ہم ریاست سے مطالبہ تو ہر سہولت کا کرتے ہیں مگر اس کی ترقی کے لئے اپنا حصہ ادا کرنے میں جان بوجھ کر اجتناب کی راہ اختیار کرتے ہیں… اس سوچ اور عمل نے بھی پاکستان کی معیشت کو زنگ آلود کرنے میں کم کردار ادا نہیں کیا… ایک اور بنیادی وجہ جس نے ہماری معیشت کے تالاب کو چھپڑ میں تبدیل کر دیا ہے… وہ یہ ہے کہ ہماری منڈیوں میں روزانہ کے حساب سے اربوں کا لین دین دستاویز بند نہیں … عارضی پرچیوں سے کام چلایا جاتا ہے اور وہی لین دین کے سمجھوتوں میں مستند سمجھی جاتی ہیں… بینکاری کے نظام کو اس میں کم عمل دخل حاصل ہوتا ہے… نتیجے کے طور پر کاروباری لین دین کا ایک بڑا حصہ کسی ریکارڈ پر آتا ہے نہ اسے آڈٹ اور ٹیکسوں کے نظام کی چھلنی سے نکلنے دیا جاتا ہے… وہی پرانا محاورہ کہ پاکستان کے تاجر امیر سے امیر ہوتے جا رہے ہیں مگر قومی خزانہ کھوکھلے پن یا دوسروں کی محتاجی کا شکار رہتا ہے… جب تک یہ وجوہ ’’قائم و دائم‘‘ ہیں شوکت ترین صاحب یا اتنا بڑا ماہر امور مالیات وزیر خزانہ کا منصب سنبھال کے نت نیا بجٹ پیش کرنے حکومت وقت اپوزیشن کو شکست دے کر اسے کامیاب کرانے کی منازل طے کرتے رہے معیشت ہماری صحیح معنوں میں نمو حاصل نہ کر پائے گی… ویسے بجٹ پیش کرنے سے قبل موجودہ حکومت نے 3.9 فیصدی شرح نمو کا جو دعویٰ کیا اور بجٹ دستاویز کے اندر اس کے گراف کو 4.8 فیصد کے قریب لیجانے کا جو مژدہ سنایا ہے کراچی یونیورسٹی کے معتبر ترین ادارے IBA کے ماہرین کی ایک کمیٹی نے اسے مشکوک قرار دیا ہے… اس حد تک کھوکھلی معیشت اور بجٹ کی لفاظی سے قطع نظر غیروں کی محتاجی میں اضافہ ہوتا رہے گا اور مہنگائی اور بیروزگاری کے ستائے ہوئے عام آدمی کی حالت اسی طرح پسماندگی کا شکار رہے گی جیسی کہ شروع سے چلی آ رہی ہے…

تبصرے بند ہیں.