قارئین کرام، امید ہے کہ آپ نے بظاہر دو چھوٹی نظر آنے والی مگر انتہائی اہم خبریں ملاحظہ فرمالی ہوں گی۔ پہلی خبر کے مطابق حکومت نے اب چوکر پر بھی سیلز ٹیکس عائد کر دیا ہے، جس کی شرح سترہ فیصد ہے۔ علاوہ ازیں آٹے پر ٹرن اوور ٹیکس پچیس فیصد سے بڑھا کر پچیس اعشاریہ ایک فیصد کر دیا ہے۔ چنانچہ ردِعمل کے طور پر فلور ملز ما لکان نے ہڑتال کا اعلا ن کر دیا ہے۔ لا محالہ اس سب کا نزلہ ملک کے غر یب عوام کے دامن پر گر ے گا کیو نکہ روزمرہ خوراک کا یہ اہم ترین جزو بھی ان کی پہنچ سے دور ہو جا ئے گا۔ پا کستان کا شما ر پہلے ہی دنیا کے ان غر یب ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے جہا ں لو گ کم خوراکی کا شکار ہیں اور یو ں وہ اعتدال کی زند گی گزارنے سے محروم ہیں۔ دوسری اہم خبر کے مطابق پنجاب کابینہ نے وزرا اور مشیران کیلئے چھیالیس کی تعداد میں پرتعیش گاڑیاں خریدنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ معاملہ اچانک اجلاس کے دوران پیش ہوا۔ غور طلب بات یہ ہے، بغیر کسی قسم کی بحث کے مکمل اتفاقِ رائے سے منظو ر بھی ہو گیا۔ میں پہلے بھی اپنے کسی کا لم میں لکھ چکا ہوں کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ 13
ٹریلین قرض لیا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال مارچ تک پاکستان کا مجموعی قرض 38 ٹریلین یعنی 380 کھرب روپے ہو چکا ہے۔ پاکستان اقتصادی سروے 2020-21کے مطابق جب وزیراعظم عمران خان نے 2018 میں اقتدار سنبھالا تو ملک کا مجموعی قرض 24.9 ٹریلین روپے تھا جو اگلے سال تقریباً آٹھ ٹریلین کے اضافے کے ساتھ 32.7 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔اس کے بعد سال 2020 میں مزید اضافے کے ساتھ مجموعی قرض 36.4ٹریلین تک جا پہنچا اور اس سال مارچ تک 38 ٹریلین کا قرض حکومت پاکستان کے ذمہ واجب الادا ہو چکا ہے۔قا رئین، عا م آ دمی کو بیو قوف بنا نے کا عمل اس وقت ہی اپنے اختتا م کو پہنچ سکے گا جب عا م آدمی کو احساس ہو گا کہ لا ل،نیلی بتیاں اور سبز نمبر پلیٹیں لگا کر گھو منے والوں کو یہ گا ڑیاں ہم نے خر ید کر دی ہو ئی ہیں۔ اور اس میں جلنے والا ایندھن، پٹر ول نہیں، بلکہ ہما را ہی خون پسینہ ہے۔
کوئی شک نہیں کہ غربت کے اعتبار سے صوبہ بلوچستان سرفہرست ہے۔ لیکن وہ دشت غربت میں
تنہا تو نہیں۔ کون سا صوبہ، کون سا علاقہ ایسا ہے جہاں غربت نے پنجے نہیں گاڑے ہوئے؟ جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ پاکستان غربت کے لحاظ سے دنیا کے غریب ترین ممالک روانڈا، گھانا اور صومالیہ جیسے ممالک کی لسٹ میں شامل ہوچکا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ جو زیادہ پرانی نہیں، کے مطابق پاکستان معیشت کے اعتبار سے دنیا کے 104 ممالک میں 100 ویں نمبر پر ہے۔ اب کیو ں نہ مثا ل کے طور ایک نظر بلاول ہاؤس لاہور میں ہونے والے پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پہ پارٹی کے جیالوں کے کھانے پہ ٹوٹتے ہوئے مناظر پہ ڈالی جائے۔ مگر یہ مناظر تو آپ کو ہر سیاسی پارٹی، خواہ وہ مسلم لیگ (ن) ہو یا تحریک انصاف ہو، کے عوامی کھانوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ کھانے عموماً ٹھیکے پہ پکے ہوئے بریانی کی دیگوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مگر پارٹیو ں کے کارکنان اس پہ اس طرح سے ٹوٹتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ وہ کیوں نہ ٹوٹیں، اس لیے کہ وہ دسیوں میل کا سفر طے کرکے ایک وقت کے کھانے کے لیے پہنچے ہوتے ہیں۔ کیا اس سے اس ملک کے 50 فیصد عوام کے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی بات سمجھ نہیں آتی؟ اور ہمارے ٹی وی چینلز کھانے کے یہ مناظر دکھا کر کارکنوں کی بدتہذیبی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ خالی پیٹ بری بلا ہے؟ یہ کھانے کی پُر تکلف میز پہ چھری کانٹے کا استعمال بھرے ہوئے پیٹ کی بات ہے۔ کیونکہ ؎
نور سرمایہئ سے ہے روحِ تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حس لطافت کو مٹادیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
بدتہذیبی سے مٹھی بھر بریانی پہ ٹوٹتے ہوئے کارکنوں کو شرم دلانے کے بجائے اس ملک کے ان 100 خاندانوں کو شرم دلائی جائے جو اَربوں جمع کرنے کے بعد بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں جتے ہوئے ہیں۔ پچھلے ہی ہفتے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ایک معزز اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں 150 فیصد اضافے کے باوجود کیوں اسمبلیوں کی حاضری پوری نہیں ہوتی۔ معزز رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ یہ اضافہ تو ان کا حق تھا، اسمبلیوں میں آنا یا نہ آنا مکمل طور پر ارکان کا صوابدیدی معاملہ ہے۔ وہ کوئی سکول کے طلباء تو ہیں نہیں کہ انہیں حاضری کے لیے ہیڈ ماسٹر کے سامنے پیش ہونا پڑے۔ اسمبلیوں میں حاضری پوری کرنے کا طریقہ ہے کہ آپ ارکان کے لیے وہاں کوئی کشش رکھیں۔ مثلاً یہ کہ ارکان کو علاقے کی فلاح و بہبود کے نام پر فنڈز جاری کیے جائیں۔ فنڈز جاری کرنا کوئی برا عمل نہیں۔ مگر آپ کیا ایک بھی رکن اسمبلی سامنے لائیں گے جو ان فنڈز سے صرف اپنی تجوریاں نہ بھرتا ہو؟ یہ معزز ارکان اسمبلی اندرون سندھ، اندرون پنجاب، بلوچستان، فاٹا اور سرحد کے علاقوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی اپنی پارٹیوں کے لیے کٹ مرنے کا اسمبلی کے فلور پر یقین تو دلارہے ہوتے ہیں مگر اپنے حلقوں کی معاشی زبوں حالی کی تصویر کشی کبھی پیش نہیں کرتے۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں کو تو ایک طرف رکھیئے، بڑے شہروں کے عوام بھی کھانے کے گھٹیا معیار سے جانتے بوجھتے سمجھوتہ کرنے پہ مجبور ہیں۔ آپ ذرا جنوبی پنجاب، تھر، سرحد اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں جا کر ملاحظہ کریں۔ لوگ کھلے عام ننگے پیروں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ایک جوتا تک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اگر جوتا ہوتا ہے تو انہوں نے اسے پلاسٹک کے لفافے میں ڈال کر گھسنے سے بچانے کے لیے بغل میں دبایا ہوتا ہے۔ مگر اسی ملک کے وفاقی وزیر خزانہ پوری قوم کو زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پہ پہنچ جانے کی نوید سناتے نہیں تھکتے۔ پھر انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ان کی غربت کے دن بس کل تک ختم ہوجائیں گے۔
عا م آ دمی سو چتا رہ جا تا ہے کہ آ کر وہ کل کب آئے گی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.