تیس ڈویژنوں کو صوبے بنانے کی تجویز

135

ہسٹری، جرنلزم اور سیاسیات کا ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناتے میری رائے ہے کہ ہماری معاشی، معاشرتی اور سیاسی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ملک میں بڑے علاقوں کے حامل بدانتظام صوبے ہیں۔ اِن صوبوں کا بڑے علاقوں پر محیط ہونا چند سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری بھی قائم کرتا ہے اور عوام کے بجائے سیاسی خاندانوں کو تقویت دیتا ہے۔ یعنی خاندانی سیاسی جماعتیں ایک صوبے پرہی حکومت قائم کرکے قومی سطح پر طاقتور بن جاتی ہیں اور لسانی و صوبائی کارڈ استعمال کرتی ہیں۔ صوبوں کا رقبہ بڑا ہونے سے صرف چند شہر ہی ترقی یافتہ ہیں۔ باقی ملک کا بیشتر علاقہ پسماندہ ہے اور غریب کالونی کا منظر پیش کرتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو ملک پر چڑھنے والے قرضوں کا کرپشن کے بعد زیادہ تر حصہ صرف انہی چند شہروں پر خرچ ہوتا آیا ہے جبکہ ان قرضہ جات کی ادائیگی کے لیے پورے ملک کے ہر پاکستانی کی جیب سے رقم نکلوائی جاتی ہے۔ بڑے رقبوں والے صوبوں کی فلاسفی کے باعث ہی تخت لاہور بنا اور کراچی کو اپنی مٹھی میں لینے کی جنگ جاری رہی۔ میرے نزدیک چار بدانتظام صوبوں کی جگہ پاکستان کے موجودہ تیس ڈویژنوں کو صوبوں کا درجہ دینا چاہیے۔ یہ بات ریکارڈ میں ہے کہ ہزارہ، بہاولپور اور جنوبی پنجاب وغیرہ جیسے چند علاقوں کو صوبے بنانے کی بازگشت تو سنائی دیتی ہے لیکن ملک کے ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے کی فوکسڈ تجویز اِس سے پہلے نہیں دی گئی۔ یہ سب کچھ جمہوری اور پارلیمانی طریقے سے آئینی ترامیم کے ذریعے ممکن ہے۔ پاکستان میں اس وقت چار آئینی صوبے ہیں جن کے اندر بلوچستان میں سات، پنجاب میں نو، خیبرپختونخوا میں سات اور سندھ میں سات ڈویژنز ہیں۔ گویا ملک کے 
چاروں صوبوں میں کل تیس ڈویژنز ہیں۔ اگر ان ڈویژنز کو صوبوں کا درجہ دے دیا جائے تو ملک میں کل تیس آئینی صوبے بن جائیں گے۔ پاکستان کے تیس ڈویژنوں کو صوبے کا درجہ دینے کے درج ذیل فوری فائدے ہیں۔(1 74برس کی ہسٹری کو سامنے رکھیں تو ترقیاتی کاموں اور سہولتوں کی فراہمی کا مرکز صوبائی دارالخلافے یا چند بڑے شہر ہی ہوتے ہیں۔ یعنی متعلقہ صوبائی حکومتوں کی مکمل توجہ صوبائی دارالخلافوں یعنی کوئٹہ، لاہور، پشاور اور کراچی پر مرکوز ہوتی ہے۔ انہی چار شہروں پر متعلقہ صوبوں کے زیادہ تر وسائل خرچ ہوتے ہیں جس کی بنا پر 74برس میں یہ چار صوبائی دارالخلافے متعلقہ صوبوں کے دیگر شہروں سے بہت آگے ہیں اور متعلقہ صوبوں کے دیگر شہر صوبائی حکومت کی کم یا عدم دلچسپی، توجہ اور وسائل کی کم یابی کے باعث بہت پیچھے ہیں یا بہت پسماندہ ہیں۔ اگر ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دے دیا جائے تو نئی صوبائی حکومتوں کے ذریعے موجودہ صوبوں کے پسماندہ اور دورافتادہ علاقے بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں گے۔ (2صوبائی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ، وزراء اور صوبائی اعلیٰ سرکاری افسران چونکہ صوبائی دارالخلافے میں ہی قیام پذیر ہوتے ہیں لہٰذا وہ اپنے صوبے کے دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں کی دادرسی سے بہت دور ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار سیاسی طور پر وزرائے اعلیٰ اپنے صوبے کے پسماندہ اور دورافتادہ علاقوں کا دورہ کرلیتے ہیں جوکہ ایک میڈیا ایکٹیویٹی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ڈویژن کی سطح پر صوبہ قائم کردیا جائے تو متعلقہ نئے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور اعلیٰ سرکاری افسران کے صوبے کا رقبہ کم ہوگا جس کے باعث وہ اپنے صوبے کے آخری سرے تک کے مسائل کو جان سکیں گے اور نتیجتاً متعلقہ صوبے کے وزرائے اعلیٰ اور اعلیٰ سرکاری افسران اُس صوبے کی عوام کی پہنچ میں بھی ہوں گے۔ (3موجودہ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے چار صوبوں کو قومی وسائل میں شریک کیا جاتا ہے۔ موجودہ چار صوبے اِن وسائل کو اپنے صوبے میں یکساں طور پر پھیلانے میں کامیاب نہیں رہے جس کے باعث موجودہ ہر صوبے کا بیشتر علاقہ اُس صوبے کے چند ترقی یافتہ شہروں کے مقابلے میں ناانصافی کا شکار نظر آتا ہے۔ ڈویژن کی سطح پر نئے صوبے قائم ہونے سے این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم پورے ملک میں براہ راست ہوگی اور اس کے فوائد سے ملک کا بیشتر علاقہ جو پسماندہ اور غیرترقی یافتہ ہے براہ راست مستفید ہوگا۔ این ایف سی ایوارڈ کے موجودہ فارمولے میں آبادی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ نئے صوبوں کے قیام کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے میں آبادی کے بجائے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ فنڈ فراہم کرنے کی بارڈر لائنیں بنا دی جائیں۔ ڈویژن کی سطح پر نئے صوبے بننے کے بعد بعض صوبوں میں آبادی بہت کم ہوگی۔ اگر آبادی کے فارمولے کے تحت انہیں وسائل فراہم کیے گئے تو ان کے پاس ناکافی وسائل ہوں گے جبکہ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ وسائل کی بارڈر لائن بنانے سے پسماندہ صوبے بھی ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہو سکیں گے۔ (4موجودہ چار صوبے اپنے وسائل سارے صوبے سے اکٹھے کرکے صوبائی دارالخلافے کی طرف منتقل کرتے ہیں جبکہ متعلقہ صوبوں کے پسماندہ علاقے وسائل پیدا کرنے کے باوجود غیرترقی یافتہ رہتے ہیں۔ ڈویژن کی سطح پر نئے صوبے قائم کرنے سے نئے صوبوں کے اندر سے وسائل اکٹھا کرکے اپنے ہی صوبے پر خرچ کرنے سے اُس صوبے کا تقریباً تمام علاقہ ترقی حاصل کرے گا۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.