……اور اب بلو چستان اسمبلی

146

خیا ل تھا کہ قو می اسمبلی میں ارا کینِ اسمبلی کی جانب سے کی گئی غنڈہ گر دی کے بعد حا لا ت سنبھل جا ئیں گے۔ مگر نہیں،اس کے بعد چشمِ فلک نے بلو چستان اسمبلی کے معز ز اراکینِ اسمبلی کو قو می اسمبلی کے اراکین سے دو ہا تھ آ گے جا نا دیکھنا تھا، سو دیکھ لیا۔ کہنا یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران پیدا ہونے والی بدمزگی کی دھول ابھی پوری طرح بیٹھی نہ تھی کہ بلوچستان اسمبلی میں بجٹ کے روز ارکان کے طرزِ عمل نے ملکی جمہوری نظام پر لاحق تشویش کو بلند تر سطح پر پہنچادیا ہے۔ قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، ممکن ہے آنے والے چند روز میں عوامی حافظے سے محو ہوجاتا مگر بلوچستان اسمبلی کی واقعات نے راکھ میں دبی ان چنگاریوں کو ہوا دے دی ہے۔ چنانچہ آنے والے مزید کئی دن ملک کا جمہوری سیٹ اپ عوامی گفتگو کا موضوع رہے گا۔ پہلے بھی بیا ن کر چکا ہو ں کہ اسمبلیوں میں پہلے بھی ہنگا مہ آ را ئی ہو جا یا کر تی تھی۔ مگر تب ایسا کر نے کی ذمہ داری اپو زیشن جما عتو ں کے کا ند ھو ں پہ آ یا کر تی تھی۔ مگر اس مر تبہ اس کا کر یڈٹ برابر ی کی سطح کو ملحو ظِ خا طر رکھتے ہو ئے حکو متی جما عت کو بھی مِل رہا ہے۔ لگتا کچھ یو ں ہے کہ حکو متی جما عت کو یقین ہی نہیں کہ وہ حکو مت میں ہے۔خو د اعتما دی کی کمی کی بناء پر خو د پہ اپو زیشن کی جانب سے تنقید پہ وہ یکدم سے بھڑک ا ٹھتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ پارلیمانی اداروں کا وقار قائم کرنے کے حوالے سے حالیہ دنوں ذرائع ابلاغ اور عوامی حلقوں میں جو کچھ کہا گیا بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس سے پہلے بھی بجٹ عام طور پر گرما گرم ماحول ہی میں پیش ہوا کرتے تھے، مگر جو کچھ اس بار دیکھنے میں آیا ہے اس کی مثال ملکی پارلیمانی تاریخ میں بہت کم ملے گی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ان واقعات کو محض اپوزیشن کا ہنگامہ قرار دے کر نظر انداز کرنے کے بجائے باقاعدہ تحقیقات کروالی جائیں تاکہ آنے والے وقت میں ایسے ناخوشگوار طرزِ سیاست سے بچا جاسکے۔ قومی اسمبلی کی سطح پر بدمزگی کے اس کیس کو جس جلد بازی سے نمٹایا گیا، اس کا اگرچہ یہ فائدہ ہوا کہ بجٹ اجلاس کے باقی روز رہنما ایوان میں تشریف رکھنے اور نچلا بیٹھنے پر آمادہ ہوگئے، اس طرح بجٹ پر گفتگو کی رسم پوری ہونے کا امکان پیدا ہوا مگر اس جلد بازی نے ایوان کا ماحول خراب کرنے کے اسباب کا تعین نہیں کیا۔ چنانچہ ارکان میں مڈبھیڑ کے محرکات جوں کے توں ہیں اور یہ خدشہ موجود ہے کہ ایوانِ پارلیمان میں غصے کا آتش فشاں کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔اس کا ثبو ت رات کو ہو نے والے ٹی وی ٹاک شوز ہیں۔ کیا ان شوز میں کسی بھی پا رٹی کا کو ئی بھی
رکن دل سے شر مند ہ ہو تا نظر آ یا؟در اصل یہ قضیہ اصلاح کی ایک جامع کارروائی کا متقاضی تھا تاکہ حکومتی ایوانوں کی تضحیک کے بجائے معزز ارکان یہاں اپنے کارِ منصبی یعنی قانون سازی پر توجہ دیں۔ حکومت کو حزب اختلاف سے شکایت ہو یا فریق ثانی کو فریق اول سے، ہماری فصیح و بلیغ قومی زبان میں تہذیب کے دائرے میں رہ کر مافی الضمیر بیان کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی پارلیمان کے ارکان ہوں یا صوبائی اسمبلیوں کے، ان کے رہنماؤں کو سنجیدہ فکر اور مہذب ہونا چاہیے۔ یہی ان کا مقام ہے۔ گریبان پکڑتے، گالیاں دیتے اور سطحی مفادات کی خاطر معقولیت کی حد سے گرتے ہوئے ارکانِ اسمبلی اچھے نہیں لگتے۔ جو کچھ کوئٹہ میں گزشتہ روز دیکھا گیا کیا ایک اسمبلی کے ارکان کو یہ زیبا ہے؟ بظاہر حکومت نے بھی معاملات کو سنبھالنے میں کوتاہی کی۔ اگر حکومت بلوچستان کی جانب سے حزب اختلاف کے کارکنوں کے لیے اسمبلی میں جانے کے راستے بند کیے گئے تو یہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ حکومت بجٹ پیش کرنے جارہی تھی تو اصولی طور پر حکمران اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے نمائندگان کے ذریعے افہام و تفہیم پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ اگر یہ اقدامات بروقت کیے ہوتے تو جو تماشہ گزشتہ روز اسمبلی کی عمارت کے باہر لگایا گیا کم از کم اس سے بچنا ممکن تھا، لیکن ہمارے ہاں حکمران طبقہ مخالف فریق کا وجود کہاں تسلیم کرتا ہے اور حکومت کے اس ’اکیلے کھیلنے‘ کے مزاج نے جمہوریت کو مذاق بنادیا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ سپیکر بلوچستان کو احتجاجی اپوزیشن نے اسمبلی کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا جبکہ وزیراعلیٰ کو داخلے کیلئے پولیس کی مدد لینا پڑی۔ یہ سارا دنگل، اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے بقول حکومت کی جانب سے ان کے مطالبات منظور نہ کرنے کے ردِ عمل میں تھا۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں سیاست اکثر سیاسی حلقے کے نام پر ترقیاتی فنڈز کے گرد ہی گھومتی ہے۔ ہر دور میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر لے جاتے ہیں۔ ملک کے کسی بھی علاقے کے صوبائی یا قومی اسمبلی کے حلقے کے نام پر پچھلی تین، چار حکومتوں کے دوران کتنے فنڈ جاری کیے گئے اور ان رقوم سے کس علاقے میں کتنا ترقیاتی کام ہوا، ان منصوبوں کی کیا افادیت ہے، لوگ ان سے کس حد تک استفادہ کر رہے ہیں؟ یہ آڈٹ سرکاری سطح پر کروانا چاہیے اور اس کے نتائج عوام کیلئے جاری کرنے چاہئیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھے رہنما اپنے حلقوں کے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے انہیں ان عوام کے مفادات کے تحفظ کی جدوجہد ضرور کرنی چاہیے، مگر کسی دور میں کسی ایک علاقے کو دی جانے والی رقوم کے اثرات کاجائزہ بھی لیا جانا چاہیے تاکہ کم از کم یہ تو سامنے آئے کہ اس رقم سے کیا مقاصد حاصل ہوئے۔ نیز یہ کہ ملک کے وہ دور دراز علاقے جہاں بنیادی سہولیات کا نشان بھی نہیں ملتا، کیا انہیں ملکی تاریخ میں کبھی کوئی ترقیاتی فنڈ جاری نہیں ہوئے؟ ترقیاتی فنڈز کے گرد گھومنے والی سیاست کا قبلہ درست کرنے کیلئے لوکل گورنمنٹ کا نظام ناگزیر ہے۔ اصولی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلی میں بیٹھے معزز ارکان کو قانون سازی اور اس اونچی سطح کے کام زیب دیتے ہیں جبکہ ترقیاتی منصوبوں کی تعمیل کیلئے بنیادی جمہوری اداروں کو بروئے کار لایا جائے۔ ہمارے ملک میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کا خانہ خالی رکھ کر نہ ہم ملکی سطح پر جمہوری اقدار قائم کر پارے ہیں اور نہ بہترین طرزِ حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس خلا میں عملی طور پر جو ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے کہ کہیں معزز ارکان پارلیمان للکارے مارتے، گالیاں دیتے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور کہیں صوبائی ارکان اسمبلی گیٹ کو تالا لگا کر سسٹم ہی یرغمال بنالیتے ہیں۔ یہ ہمارے یک رُخے جمہوری نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے۔

تبصرے بند ہیں.