ملکہ استنبول،جھونپڑی سے محل تک کا سفر،بازار حسن کی رہائشی کیسے بادشاہ کی جان بنی؟

235

قسط دوئم

اسد علی

تھیوڈورا کے والد اکاسیس سٹیڈیم میں کرتب دکھانے والے ریچھوں کی ایک ٹیم کے رکھوالے تھے اور ریس والے دن وہاں تماشہ دکھاتے تھے اور اس کی ماں ریسوں کے درمیان وفقے میں سٹیڈیم میں پرجوش شائقین کے لیے تفریح کا بندوبست کرنے والی ایک تھیٹر کمپنی کا حصہ تھی۔

سلطنت کے شہروں میں باقاعدگی سے رتھ والی گھڑ دوڑیں ہوتی تھیں اور بڑے بڑے ہجوم ریسوں والے دنوں میں سٹیڈم کا رخ کرتے تھے۔ ہر دن میں 25 ریسیں ہوتی تھیں۔مؤرخ بتاتے ہیں کہ شہنشاہ سمیت ہر شخص گھوڑوں کی کسی نہ کسی ٹیم کا فین ہوتا تھا اور عام طور پر یہ زندگی بھر کا اور انتہائی جذباتی تعلق ہوتا تھا۔ ٹیموں کے نام رنگوں پر رکھے گئے تھے مثلاً سبز ٹیم، نیلی ٹیم اور سرخ ٹیم اور اس کا اپنے ’فین‘ کے ساتھ تعلق ایسے ہی تھا جیسے، ایونز کے مطابق، آج کل یورپ میں فٹبال ٹیموں اور ان کے ’فین‘ کا ہوتا ہے۔ اس روایت کی جڑیں قدیم رومی سلطنت میں ملتی تھیں۔

مؤرخ تھامس ایف میڈن نے اہنی کتاب ’استنبول‘ میں اس شہر اور ہپوڈروم کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جیسے جیسے استنبول بڑا ہوتا گیا دیہاتی علاقوں سے غریب، غیر ہنرمند نوجوان بہتر زندگی کی تلاش میں اس کی طرف کھنچے چلے آئے۔

’کچھ تو کامیاب ہو گئے لیکن زیادہ تر کم پیسوں پر کبھی کبھار ملنے والی مزدوری، حکومت کی طرف سے ملنے والی مفت بریڈ اور ہپوڈروم میں گھڑ دوڑ اور وہاں ملنے والی تفریح کے چکر میں پھنس کر رہ گئے تھے۔‘

یہ نوجوان مختلف ٹیموں سے وابستہ تھے اور ان کے بارے میں انتہائی جذباتی بھی۔ ان کے خلاف نشے میں دھت ہو کر ہلڑبازی کی شکایات پرانے وقتوں سے چلی آ رہی تھیں۔

آیا صوفیہ: یکم اپریل سن 527 کو، ایک مؤرخ کی زبان میں ‘آیا صوفیہ میں ایک شاندار تقریب میں استنبول کے بشپ نے سلطنت روم کے شاہی تاج ایک کسان اور ایک طوائف کے سر پر رکھ دیے۔ میڈن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ چھٹی صدی میں مقابلوں کے اختتام پر یہ ہلڑبازی مختلف ٹیموں کے مداحوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں میں بدل چکی تھی۔ ’مختلف گینگ اپنی اپنی ٹیم کے گیت گاتے سڑکوں پر گھومتے تھے، املاک کو نقصان پہنچاتے تھے، چوریاں کرتے تھے اور کئی بار تو بات قتل تک پہنچ جاتی۔ اس زمانے کے ایک مصنف چوریسیس کے مطابق گھڑ دوڑیں ہجوم کا جوش اور جذبات بھڑکاتی تھیں اور یہ امن و امان کے لیے خطرے کی بات ہوتی تھی جبکہ انٹرٹینمنٹ کمپنیاں تفریح فراہم کرتی تھیں۔ ’یہ ہجوم کو قابو کرنے کا بہترین طریقہ تھا۔ تھیوڈورا کے خاندان کی زندگی سبز ٹیم سے جڑی تھی۔ اس کے والد سبز ٹیم کے ریچھوں کے رکھوالے تھے اور ماں سبز ٹیم کے تھیٹر میں ناچتی تھی۔ لیکن ان کا سبز ٹیم سے یہ ساتھ ایک دن اچانک ختم ہو گیا۔

چھٹی صدی کے ابتدائی برسوں میں تھیوڈورا کے والد اکاسیس وفات پا گئے۔۔ تاریخ شاید اکاسیس کا نام بھی نہ یاد رکھتی اگر وہ مستقبل کی ملکہ تھیوڈورا کے والد نہ ہوتے۔ اس وقت تھیوڈورا کی عمر غالباً پانچ سال تھی اور اس کی بڑی بہن کی سات سال۔ ان کے لیے صورتحال انتہائی گمبھیر تھی کیونکہ اس زمانے میں والد کے بعد بیٹا اس کے پیشے میں اس کی جگہ لیتا تھا لیکن اکاسیس کا بیٹا نہیں تھا۔ اپنی بیٹیوں کے لیے صورتحال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اکاسیسں کی بیوہ نے اس امید پر دوسری شادی کر لی کہ اس کے نئے شوہر کو اکاسیس کی نوکری مل جائے گی اور ان کی بیٹیوں کے لیے گھر میں آمدن کا سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں تھا۔ ریچھوں کا رکھوالا بیشک معاشرے میں نچلے درجے کا انسان تھا لیکن اس کی نوکری کے ساتھ مستقل ماہانہ آمدن کی ضمانت تھی جو اس زمانے میں کسی کے لیے بہت بڑی بات تھی۔ تھیوڈورا کے والد کی جگہ لینے کے لیے امیدواروں کا تانتا بندھ گیا۔ فیصلہ سبز ٹیم کے لیڈ ڈانسر کے ہاتھ میں تھا اور مؤرخ بتاتے ہیں کہ گرین پارٹی کا لیڈ ڈانسر استیریوس بھی کئی دیگر سرکاری اہلکار کی طرح رشوت کا عادی تھا۔ اس نے پیسے لے کر اکاسیس کی بیوہ کے نئے خاوند کی بجائے کسی اور کو اپنی ٹیم کے ریچھوں کے رکھوالے کی نوکری دے دی۔

ایونز لکھتے ہیں کہ یہ خبر ریچھوں کے سابقہ رکھوالے کے چھوٹے سے خاندان پر قیامت بن کر گری۔ تھیوڈورا اور اس کی بہن کے پاس اب ایک سوتیلا باپ تھا لیکن کوئی آمدن نہیں تھی۔ ان کی ماں نے اس کے بعد آخری پتہ بھی کھیل دیا۔ استنبول میں ہتھر کے یہ مینار ہپوڈروم کی نشانیاں ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہپوڈروم تقریباً ایک ہزار سال تک مشرقی سلطنت روم یا بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت استنبول میں سماجی، تفریحی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

ہپوڈروم میں اگلے میلے کے موقع پر تھیوڈورا کی ماں نے اپنی بیٹیوں کو تیار کر کے، ان کے سروں پر پھولوں کا تاج پہنا کر اور ہاتھوں میں گلدستوں کے ساتھ گرین ٹیم کے شائقین کے سٹینڈ کے سامنے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ زمین پر بٹھا دیا۔’انھوں نے رحم کی بھیک مانگی‘ لیکن کسی نے لیڈ ڈانسر کے فیصلے کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور اس پر یہ ہوا کہ انہی دنوں میں نیلی ٹیم کے ریچھوں کے رکھوالے کا بھی انتقال ہو گیا اور اس کے شائقین نے ان بچیوں پر ترس کھا کر ان کے سوتیلے باپ کو نوکری دے دی۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ تھیوڈورا اور اس خاندان کی وفاداریاں ہمیشہ کے لیے نیلی ٹیم کے ساتھ ہو گئیں۔ تھیوڈورا سبز ٹیم کے انکار اور نیلی ٹیم کے احسان کو کبھی بھلا نہیں سکی۔ اب یہ حسن اتفاق تھا یا ’قسمت کی دیوی‘ کی مہربانی کہ مستقبل کا شہنشاہ جسٹینین گھڑدوڑ کا شوقین بھی تھا اور نیلی ٹیم کا فین بھی۔ لیکن ابھی ان دونوں کی ملاقات میں کچھ وقت باقی تھا۔ تھیوڈورا کی عمر اس وقت پانچ سال اور جسٹینین کی 20 برس سے زیادہ ہو گی۔ ہپوڈروم میں اس واقعے کے بعد تاریخ تھیوڈورا کے سوتیلے والد اور والدہ کے بارے میں خاموش ہو جاتی ہے لیکن، ایونز لکھتے ہیں کہ، ہمیں اتنا معلوم ہے کہ جیسے ہی ان دونوں بہنوں کی عمر اس قابل ہوئی، ان کی ماں نے انھیں گھڑ دوڑ کے دنوں میں لگنے والے نیلی ٹیم کے تھیٹروں کا حصہ بنا دیا۔

شہنشاہ جسٹینین: اس زمانے کے لیے ناقابل یقین بات تھی کہ جسٹینین کی حیثیت کا آدمی تھیوڈورا جیسی عورت سے شادی کا سوچ رہا ہے۔ کسی شہنشاہ یا ولی عہد کا درجنوں عورتوں سے تعلقات رکھنا لوگوں کے لیے عجیب بات نہیں تھی، لیکن تھیوڈورا جیسے پس منظر کی عورت سے شادی الگ بات تھی۔

مؤرخ وارن ٹریڈگولڈ اپنی کتاب ’ A Concise History of Byzantium ‘(بازنطین کی مختصر تاریخ) میں لکھتے ہیں کہ تھیٹر میں آنے کے بعد ’تھیوڈورا اپنے حسن اور اس کی بیباک نمائش کی وجہ سے مشہور ہو گئی تھی۔‘شروع میں تو، ایونز کے مطابق، تھیوڈورا غلاموں والا لباس پہنے اپنی بڑی بہن کے ساتھ جاتی تھی لیکن جلد ہی اسے خود بھی تھیٹر میں کام ملنا شروع ہو گیا۔ ’اسے کامیڈی آتی تھی اور اس میں جھجک بالکل نھیں تھی۔‘ مختلف کردار ادا کرتے ہوئے وہ بھرے ہوئے تھیٹر کے سامنے جسم کے نچلے حصے پر ایک چھوٹے سے کپڑے کو چھوڑ کر ننگی ہو جاتی تھی۔ ’اس کی شہرت پھیل گئی اور گلیوں اور بازاروں میں ’عزت دار‘ لوگ اس سے فاصلہ رکھتے تھے۔تھیٹر عزت دار لوگوں کی جگہ نہیں تھی۔ ایونز لکھتے ہیں عورتوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی بلکہ ریس میں آنے کی بنیاد پر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق بھی دے سکتا تھا۔ تھیٹر پر بھاری ٹیکس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ حکومت کو معلوم تھا کہ یہ لڑکیاں ناچ اور ڈرامے کے ساتھ ساتھ جسم فروشی بھی کرتی ہیں۔تھیوڈورا کے بارے میں مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ 15 سال کی عمر میں ایک لڑکی کی ماں بن چکی تھی۔تاریخ بتاتی ہے کہ تھیوڈورا کی ماں کی تو شاید موت کے بعد مذہبی رسومات بھی ادا نہیں کی گئی تھیں کیونکہ قانون کسی پادری کو تھیٹر والی کے لیے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور ان کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک ہوتا تھا۔ تاہم، ایونز لکھتے ہیں کہ، اسی تھیٹر والی کو شام کے آرتھوڈوکس چرچ اور مصر کے قبطی چرچ میں مقدس ہستی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس عورت کی اس ہی جیسی بیٹی مستقبل میں نہ صرف سلطنت کے سرکاری مذہب(مسیحیت کا فرقہ چیلسیڈونین) کے لیے مسئلہ بن جائے گی بلکہ ایک پاپائے روم کو عہدہ چھوڑنے پر بھی مجبور کر دے گی۔

ہیسیبولیس صور شہر کا رہائشی تھا جو آجکل لبنان کا حصہ ہے۔ اس نے استنبول میں تھیوڈورا کو پسند کیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ اس کا تاریخ میں ذکر آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سلطنت روم کی مستقبل کی ملکہ ایک زمانے میں کچھ عرصے کے لیے اس کی داشتہ تھی۔ایونز کی رائے کے برعکس مؤرخ میڈن کے خیال میں تھیوڈورا کو ساتھ لے جانے والے اہلکار کا تعلق شمالی افریقہ سے تھا۔ بحرحال دونوں لکھتے ہیں کہ اس اہلکار نے تھیوڈورا کو کچھ عرصہ اپنے پاس رکھ کر گھر سے نکال دیا۔اس زمانے میں کسی اعلیٰ عہدیدار کو تھیٹر کی کسی عورت کو اٹھا کر گھر میں رکھنے کی اجازت نہیں تھی لیکن، ایونز لکھتے ہیں، یہ ایک پرانا قانون تھا جس پر غالباً اس زمانے میں عمل نہیں ہوتا تھا۔تھیوڈورا اس وقت تک ایک بچی کی ماں بن چکی تھی اور اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھیں اور مؤرخین کا خیال ہے کہ شاید یہ ہی ان دونوں کے اختلافات کی وجہ بنی اور تھیوڈورا بے گھر ہو گئی۔یہاں سے تھیوڈورا کا استنبول کا واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے جہاں اِس بار اس کا مستقبل ’طوائفوں کی گلی‘ نہیں بلکہ شاہی محل میں ملکہ کے تخت پر منتظر تھا۔ لیکن تھیوڈورا کا استنبول تک کا سفر اسکندریہ اور انطاکیہ سے ہو کر گزرتا تھا اور اسے اس میں کچھ وقت لگا۔ اس دوران اسے کچھ ایسے تجربات ہوئے جنھوں نے بعد میں نہ صرف اس کی اپنی زندگی بلکہ سلطنت روم اور مسیحیت کے مستبقل پر بھی گہری چھاپ چھوڑی۔

اٹلی کے ایک گرجا گھر میں ملکہ تھیوڈورا کے دربار کا تصوراتی خاکہ: مؤرخ بتاتے ہیں کہ تھیوڈورامعاشرے کے جس حصے میں پیدا ہوئی تھیں اور بڑی ہوئی تھیں وہاں پادری لوگوں کی آخری رسومات بھی کئی بار ادا کرنے نہیں جاتے تھے۔

مؤرخین کا خیال ہے کہ تھیوڈورا بے گھر ہونے کے بعد ایک تجارتی سمندری جہاز کے ذریعے کسی طرح اسکندریہ پہنچی جہاں اس کے ساتھ کچھ ایسا ہوا جس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے لیکن اس کی زندگی میں روحانیت آ گئی۔ان دنوں میں مسیحی دنیا ’خدا‘ کے انسانی اور مقدس روپ کی بحث کی بنیاد پر مختلف فرقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ لیکن تھیوڈورا کا اب تک ان میں کسی سے بظاہر کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اسکندریہ میں یہ لاتعلقی ختم ہو گئی۔ وہ زندگی بھر کے لیے مونوفیسائٹ کہلانے والے مسیحیوں کی ہمدرد بن گئی۔

تبصرے بند ہیں.