ایک ہندوستانی ریاست کے لیے قیمتی عرب گھوڑے منگوائے گئے۔ غیرمعمولی نگہداشت اور چوروں کی دست برد سے بچانے کے لیے گھوڑوں کی خاطر تہہ خانہ بنوایاگیا،اس زیر زمین اصطبل میں نہایت قیمتی خوراک اور ماہر سائیس فراہم کیے گئے۔اصطبل محفوظ، ٹھنڈا اور تاریک تھا۔ گرمی کا علاج مکمل، حفاظت کا انتظام خاطرخواہ، غیروں کا داخلہ ناممکن۔ ریاست کے نواب صاحب عرصہ تک اپنی تدبیر پر ناز کرتے رہے یہاںتک کہ گھوڑے، مہینوں اس اندھیرے اصطبل میں کھڑے کھڑے اندھے ہو گئے۔جب گھوڑوں کواصطبل سے باہر نکالا گیا تو ان کی بڑی بڑی پلکیں خودکار پردوں کی طرح یکایک ان بے نور آنکھوں پر گر پڑیں جو روشنی کی تاب لانے کے لائق نہ رہی تھیں۔یہ قصہ پاکستانی سول سروس کے ممتازترین رکن جناب مختارمسعودکا بیان کردہ ہے۔۱۴اپریل کو جن کی چوتھی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ سول سروس کے لائق فائق لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کے گھوڑے بھی پہلے ہی دن زمین دوز اصطبل میں باندھ دیے جاتے ہیں، پنشن پانے کے بعد جب یہ گھوڑے سطح زمین پر عام آدمی پر طلوع ہونے والے سورج کے سامنے آتے ہیں تو روشنی کا سامنا نہیں کرپاتے اوریوں زندگی کے حقیقی روپ کو دیکھنے کے قابل نہیں رہتے ۔اس کے مقابلے میں وہ گھوڑے جنہوں نے زندگی کی ہماہمی میں آنکھیں کھولی ہوں اور تلخ و ترش سے آشنارہے ہوںصرف بیناہی نہیں زندگی سے بھرپور بھی ہوتے ہیں ۔ یہ ایک دلچسپ اور نصیحت افروز قصہ ہے جس کی مددسے ہم بلندمناصب پر زندگی گزارنے والوں کی شخصیتوں کی پیچیدگی کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔انسانی شخصیت ایک پیچ در پیچ معما ہوتی ہے انسان خود کو بھی نہیں جانتا کجا دوسروں کی شخصیتوں کو جاننے کا دعویٰ کیاجائے تاہم سامنے آجانے والے مظاہر کی مددسے شخصیت کے بنیادی عناصر کی نشان دہی تو کی جاسکتی ہے۔ مختارمسعودصاحب نے شخصیت کے حوالے سے لکھاہے کہ ’’اگرخداداد صلاحیت موجود ہو اور اس کی تربیت ارسطواور لیونی ڈس جیسے اساتذہ کے ہاتھوں ہوجائے تو دنیاوی معاملات کے بارے میں سوچنے کا انداز بالکل بدل جاتا ہے‘‘۔ سوچنے کا انداز ہی ہماری شخصیت کی تشکیل کرتاہے بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ سوچ ہی شخصیت ہوتی ہے تو کچھ ایساغلط نہ ہو گا۔ اس طرح ایک مصنف اور ادیب کی شخصیت کا اندازہ لگانا نسبتاً آسان ہوجاتاہے کہ اسے جاننے کے لیے ہمارے پاس اس کی تحریروں کا سرمایہ موجود ہوتا ہے۔ جس کی مدد سے کسی بھی زمانے میں اس کے مزاج اور کردار کے تعاقب میں جایاجاسکتاہے ۔
ایک ایسا ادیب، آ پ کے سامنے محض جس کی تحریریں نہ ہوں، جو آپ کے عہد میں رہاہو اور جسے آپ نے دیکھا بھی ہو، جسے ملنے، اس سے باتیں کرنے اور اس کے ساتھ وقت گزارنے کے مواقع ملے ہوں، اس کی شخصیت کو جاننے کی کوشش خاصا جواز پیداکرلیتی ہے ۔مختارمسعودصاحب کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔انسانی چہرہ ،اس کے الفاظ او رکردار،شخصیت کے کلیدی عناصرکی حیثیت رکھتے ہیں۔ چہرہ ،انسانی شخصیت کا آئینہ ہوتاہے ۔ان کے چہرے سے ذہانت اور جہاں بینی عیاں ہوتی تھی۔ ان کے سامنے بات کرنے والا خود بخود محتاط ہوجاتاتھا ۔ان کے چہرے میں جو خاص بات تھی اسے جوش ملیح آبادی جیسے شخص نے محسوس کیا اور اپنے ایک محبوب دوست کی موجودگی میں جب کہ وہ بہ قولِ خود، عالم ِسرور میں تھے، انہوں نے مختارمسعودکو دیکھاتو جوش صاحب کی کیفیت کچھ یوں تھی کہ ’’ان کے چہرے کی شعاعیں دیکھ کر میں چونک سااٹھتاتھا کہ یہ کیسا چہرہ ہے جو مجھ کو اس عالم سرور میں بھی اپنی طرف کھینچ رہاہے‘‘ ۔
مختار مسعود نے سکندراعظم کے بارے میں لکھاہے کہ وہ ’’ گفتار اور کردار دونوں کا مرد میدان تھا‘‘ مختار مسعود بھی گفتار و کردار دونوںکے مردِ میدان تھے، ان کی زبان سے نکلنے والاایک ایک لفظ گناچنا ،سوچا سمجھاور نپاتلاہوتاتھا جو شخص اپنے لفظوں کے بارے میں اتنا محتاط ہووہ عمل کے باب میں غیرمحتاط کیسے ہوسکتاہے۔ان کی تقریریں ہی نہیںعام گفتگو بھی بہت سنبھلی اور سوچی ہوئی ہوتی تھی، تحریر کا تو خیرکہناہی کیاجس کے لیے انہیں بہ قول شخصے ایک ایک لفظ بازارسے خریدکر لاناپڑتاتھااور اپنی عبارت میں جڑنے سے پہلے وہ اسے مدتوں چمکانے میں لگے رہتے تھے ۔ان کی تربیت میں ان کے والد کا بنیادی ہاتھ تھا جو ایک ماہر تعلیم اور معاشیات کے استاد تھے۔ ان کی شخصیت کاجو ہیولا مختارمسعود صاحب کی بتائی ہوئی باتوں سے ابھرتا ہے اس کے مطابق وہ ایک نرم گفتار اور نرم رو شخصیت کے حامل تھے۔ مختارمسعودصاحب کا کہنا تھا کہ وہ حکم بھی دیتے تو یوں لگتاتھاکہ مشورہ دے رہے ہوں ۔ان کا انداز تربیت ایساتھا کہ انہوں نے ایک بار کسی بزرگ کے بارے میں بتایاکہ’’ بھئی وہ ہمیشہ وضوسے رہتے تھے‘‘ آفرین ہے بیٹے پر جس نے اس سے اشارہ پالیاکہ والد گرامی اس سے کیا چاہتے ہیں اور یہ بات گرہ میں باندھ کروضو کو اپنی زندگی کا دستورالعمل بنالیا۔بیٹے کے بہ قول’’ ابتدامیں ذرا دشواری ہوئی لیکن پھرکھانے پینے کے معمولات ایسے بنالیے کہ ہروقت باوضورہناآسان ہوگیا‘‘اسی طرح ’’علی گڑھ میں طالب علمی کے دور میں انہوں نے خود سے وعدہ کیاتھا کہ میرادن اس وقت تک شروع نہ ہوگا جب تک کلام اللہ کا مطالعہ نہ کر لوں۔ اس معمول پر نصف صدی گزرجانے کے بعد انہوں نے بتایاکہ ’’ پچاس سال سے زیادہ مدت گزرچکی ہے اور للہ الحمد کہ صحت ہویابیماری ،مصروفیت ہو یا فراغت، میری زندگی میں اس کے بعد کوئی ایسا دن نہیں آیا جس کا آغاز کم یا زیادہ کلام باری تعالیٰ کی تلاوت سے نہ ہواہو‘‘
راقم نے ان کے والد کو نہیں دیکھا لیکن جن لوگوں نے دیکھا ان کے مطابق وہ ایک درویش صفت انسان تھے اس لیے وہ دنیاکی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ۔ہیلی کالج میں پنجاب یونی ورسٹی کی سیاست کا شکارہوئے تو خاموشی سے چنیوٹ چلے گئے اور فرنیچربنانے والوں کو سرسیداور شبلی کے تصورات تعلیم سے آشناکرنے لگے۔یہ ان کی بے آزاری،درویشی اورشریفانہ وضع ہی تھی، جس کے باعث بہ قول ظفرعلی خان ’’جتناکہ چاہیے تھا وہ اتنا بڑھانہ تھا‘‘۔ مختارمسعودصاحب کے دوستوں کا خیال ہے کہ ’’ انہوں نے اپنے والدکی درویشی کو نہ اپنایابلکہ اس سے سبق حاصل کیاکیونکہ وہ دنیاکی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے ،وہ قصداً گوشہ نشین تھے یہ عمداً محفلوں کی جان بنے ،وہ کم گو تھے اِنہوںنے برملازمانے کو اپنی بات سنائی۔ جہاں تک راقم نے ان کی گفتگووں سے جاناوہ اپنے والد سے غایت درجہ محبت کرتے تھے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے میں جب انہیں ملازمت کا موقع مل رہاتھا تو انہوں نے اسے اس لیے قبول نہ کیا کہ اس وقت ان کے والدین ضعیف ہوچکے تھے اور انھیں بیٹے کی موجودگی کی ضرورت تھی ۔راقم سے ایک بار انہوں نے والد کی وفات پرتعزیت کرنے والے ایک صاحب کے استفسار کا ذکرکیاکہ ’’باباعطا ء اللہ تہاڈے کول رہندے سن …؟تو اس پر انہوںنے جواب دیاکہ ’’ میں انھاں دے کول رہنداساں‘‘(شیخ عطاء اللہ صاحب آپ کے پا س رہتے تھے ،نہیں میں ان کے پا س رہتاتھا) جس پر وہ صاحب عمر بھر کے لیے ان کے مرید ہوگئے ۔اپنے والدسے مختارمسعودکی محبت کااظہار اس وقت بھی ہواجب انہوںنے اپناگھربنایاتو اس کانام اپنے نام پر رکھنے کے بجائے اپنے والدکے نام پر’’ العطا‘‘ رکھا۔ شیخ عطااللہ کی شخصیت کا اندازہ تو ان کی اقبال اور قائداعظم سے عقیدت ہی سے کیا جا سکتا ہے ۔ خاندان میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے فرد ہونے کے باعث ان کا گھرخاندان بھر کے لیے علم و فضل کا مرکز تھا۔ اس لیے اعزہ اپنے بچوں کو اچھے ماحول کی خاطر اور بہترتربیت کے لیے ان کے ہاں بھیج دیاکرتے تھے۔وہ اپنی والدہ کویادکرتے ہوئے کہاکرتے تھے کہ میری والدہ نے خاندان بھر کے بچوں کو روٹیاں پکاکرکھلائیں ۔ممتاز ماہر تعلیم ،قائداعظم یونیورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے سابق چیئرمین اور سابق وزیرقانون پروفیسرشیخ امتیازعلی نے بھی ابتدائی تعلیمی مراحل اپنے چچا شیخ عطاللہ کے گھر رہ کر طے کیے۔ وہ مختارمسعودصاحب سے تین چار برس بڑے ہیں۔ مختارمسعودصاحب بڑی محبت سے ان کا تذکرہ کیاکرتے تھے ۔دوران گفتگو ان کے لیے امتیاز بھائی کے القاب استعمال کرتے تھے۔
مختارمسعودصاحب کے ہاں شہیدان وطن کے لیے محبت کے جس جذبے کا اظہارہوتاہے وہ معمولی نہیں تھا۔ اس کا رشتہ بھی ان کے والدین کی شہداسے محبت سے ملتاہے۔ ان کی والدہ کا تعلق مسلم خواتین کی اس نسل سے تھا جس نے نذیر احمد اور راشد الخیری کی تحریروں اور عصمت،تہذیب نسواں اورشریف بی بی جیسے رسالوں کے زیراثرپرورش پائی تھی۔ جن کے نزدیک ان کا شوہراوراولاد ہی مرکز کائنات تھے۔ انہوں نے راقم کو بتایاکہ میری والدہ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنگ ستمبر کے شہدا کے ساتھ سپردخاک کیاجائے چنانچہ وہ آج بھی میاں میر کے قبرستان میں ستمبر پینسٹھ کی جنگ کے شہداکے درمیان آسودئہ خاک ہیںجب کہ والداپنی خواہش کے مطابق میانی صاحب کے قبرستان میں غازی علم الدین کے قدموں میں مدفون ہیں۔
مختار مسعود نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے شہداکی یاد گار قائم کرنے کے لیے لاہور میں مسجد شہدا تعمیر کرائی۔ یہ بھی ان کی شخصیت کا ایک پہلوتھاکہ مسجدپر اس کے بنیادگزاریا تعمیرکنندہ کا نام درج نہیں کیاگیا۔ یادگار کے طور پر مسجد کی تعمیر کا تخیل بجائے خود ان کی تربیت کی جس جہت کی نشان دہی کرتاہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ان کی فنکارانہ طبیعت نے اس مسجد کے لیے جو منفردڈیزائن منتخب کیا اس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔ معترضین کا کہناتھا کہ اس مسجد کے مینار اسلامی روایت کے مطابق نہیں ہیں۔ مختار مسعودصاحب صرف مذہبی ہی نہیں فن کارانہ ذہن بھی رکھتے تھے اس لیے انہوں نے اس ڈیزائن کا دفاع کیا ۔ان کا موقف تھا کہ مسجد کی گول ابھری ہوئی چھت سپاہی کی ٹوپی اور مخروطی مینار اس کی سنگین کی نشان دہی کرتے ہیں۔وہ بالآخر اپنے موقف کو منوانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے مینارکی بنیاد میں پاکستانی کرنسی اور رسالہ’’ نقوش‘‘ کا لاہور نمبر رکھوائے تاکہ عمارت کی شاخیں آسمان تک بھی پہنچ جائیں تو اس کی بنیادمیں پاکستانیت ہی کارفرما ہو ۔ ان کے اختیارکردہ ڈیزائن کے مطابق مسجد تعمیر ہوئی ۔ بعد میں اس طرز تعمیر کی مقبولیت نے ظاہر کیاکہ ان کی سوچ کو معاشرے نے قبول کرلیا ۔
تبصرے بند ہیں.