سنبھالے سے اب دل سنبھلتا نہیں

102

جو بیج بوئے گئے، ان کو ایک دن درخت بننا ہی ہے اور خاص طور پر جب حالات سازگار ہوں اور مالی ناتواں پودوں کی مکمل حفاظت بھی کر رہا ہو، ان درختوں سے پھل پھول حاصل ہوں گے یا اتنے گھنے کانٹے کہ دامن بچانا مشکل ہو جائے۔

سیاسی جغادری جو مرضی کہیں مگر جب بات ریاست کی ہوگی تو پھر حکومت کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ پاکستان کی سڑکوں پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ ڈنڈا جس کے ہاتھ میں بھی تھمائیں گے وہ ایسا ہی کرے گا جس طرح ٹی ایل پی کے کارکن کر رہے ہیں یا پولیس والے۔

پولیس والے بھی ڈنڈا پکڑ کر ایسا ہی کرتے ہیں، ان کے نزدیک کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا جو سامنے آتا ہے اس پر ڈنڈے برسانا شروع۔ یہی کام ٹی ایل پی والے کر رہے ہیں وہ تو نعرے بھی لبیک یا رسول اللہ کے لگا رہے ہیں۔ پولیس والے اسے اپنی ڈیوٹی گردانتے ہیں اور ٹی ایل پی والے اسے اپنا مذہبی فریضہ جانتے ہیں۔

دونوں اس بات سے بے خبر ہیں کہ ڈنڈے ہاتھ میں آنے کا مطلب اندھا دھند طاقت کا استعمال نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے۔ بندہ کس کس کو سمجھائے اگر یہاں ہتھیار رکھنے کی اجازت عام شہری کو مل جاتی تو پھر جو کچھ ہوتا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

سعد رضوی کی گرفتاری نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ جو کچھ آج سڑکوں پر ہو رہا ہے اسے زیادہ دیر تک ٹالا نہیں جا سکتا۔ فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے کہ ریاست اپنی رٹ برقرار رکھے گی یا پھر وہ ہتھیار ڈال کر یرغمال بن جائے گی۔جس سرعت سے ٹی ایل پی نے پاکستان کے نظام زندگی کو مفلوج کیا ہے اس سے جماعت کی تیاری صاف نظر آرہی ہے۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ نظر آرہا ہے وہ یہ دکھانے کے لیے کافی ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔

حکومت نے اپنی نااہلی سے اپنے آپ کو ایکسپوز کر دیا ہے۔ گورننس تو پہلے سے موجود نہیں تھی کہ دنیا نے سیاسی افلاس بھی دیکھ لیا۔ سعد رضوی کی اچانک گرفتاری کا فیصلہ کس سطح پر ہوا اس بارے ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں۔ کیا اس کا فیصلہ وزیراعظم نے کیا تھا یا وزیراعلیٰ نے ازخود یہ فیصلہ کر کے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ان کی گرفتاری کے بعد ردعمل کے امکان کا درست اندازہ نہیں لگایا گیا۔ گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے پاکستان کے عوام کے جذبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ ان حالات میں گرفتاری سے زیادہ ضروری بات یہ تھی کہ مذاکرا ت کیے جاتے ۔ حکومت ان سے سادہ کاغذ پر ایک معاہدہ کر سکتی ہے تو ایک بار پھر سے معاہدہ کرنے میں کیا حرج تھا۔حکومت نے اسے بھی شاید پی ڈی ایم ہی سمجھ لیا تھا لیکن اسے معلوم نہیں کہ یہ لوگ سیاسی جماعت ضرور ہیں مگر ان کا نعرہ مذہبی ہے۔

کرونا وائرس جس تیزی سے پھیل رہا ہے حکومت تو اس کا بھی صحیح ادراک نہیں کر پا رہی تھی کہ حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ادویات کی سپلائی معطل ہے ۔ ہسپتالوں میں آکسیجن نہیں پہنچ پا رہی اور ہسپتال کا عملہ سڑکوں پر خوار ہو رہا ہے۔اسلام تو ایک انسان کی جان بچانے کو انسانیت بچانے کا درس دیتا ہے۔ آج فواد چوہدری کی میڈیا سے گفتگو سنی کہ حکومت مسلح جتھوں کے ہاتھ یرغمال نہیں بنے گی۔ کاش اسی طرح کا بیانیہ اس وقت بھی سامنے آتا جب ٹی ایل پی نے اسلام آباد کا گھیراؤ کیا تھا۔ اس وقت تو تحریک انصاف ٹی ایل پی کے ساتھ کھڑی تھی۔ وہی کام آج ان کی حکومت میں ہو رہا ہے تو اسے غلط کیوں کہہ رہے ہیں۔ یا اس بات کو تسلیم کریں کہ اس وقت آپ غلط تھے ۔ جس جن کو آپ نے بوتل سے نکالا ہے وہ اب واپس بوتل میں بند ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ن لیگ کی حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال کے ہاتھ باندھے گئے اور اپنی شرائط پر معاہدہ کروا لیا گیا تھا۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے بھی تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے معاہدہ کیا ۔ جب آپ معاہدے کر چکے ہیں تو پھر ان معاہدوں میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کریںیا معاہدہ ہی نہ کرتے۔ کیا اس وقت آپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی قیمت کس صورت میں چکانا پڑے گی۔

دشمن ممالک کے سفیروں کو غیر پسندیدہ شخصیت ظاہر کر کے ملک چھوڑنے کی ہدایات ماضی میں کئی بار ہم نے دیکھی ہیں۔ معاہدہ کرنے کے بعد بھی حکومت کو ٹی ایل پی کو انگیج کرنا چاہیے تھا مگر نہیں کیا گیا۔ اب فرانس کی حکومت کو ازخود اپنے سفیر کو واپس بلانے کا بندوست کرنا چاہیے تاکہ حکومت کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہو۔ حکومت کو اپنے آپ سے یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ کیا وہ فرانس کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ فرانس کے ساتھ تعلقات کو ختم کرنے کے بعدکیا آپ یورپ سے باہر ہونے کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟

وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب کے لیے کڑا امتحان ہے۔ کل تک وہ ٹی ایل پی کے ساتھ کھڑے تھے ۔ حکومت کو آخری وارننگ دیتے رہے ہیں ۔آج انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ملک میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں یا پھر وہ استعفی دے کر ٹی ایل پی کے رہنمائوں کے ساتھ احتجاجی تحریک کا حصہ بن جائیں۔ فواد چوہدری مسلح جتھوں نے سامنے نہ جھکنے کا اعلان کر چکے ہیں کیا شیخ رشید اس بیانیے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یا مذاکرات کے ذریعے اس کشیدہ صورتحال کو بہتر بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ سجاد علی کا ایک گیت بہت مشہور ہوا تھا بس جی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب۔ اس بد امنی کے نتیجہ میں تین پولیس اہلکاروں کی جان جا چکی ہیں لوگوں کی املاک کو تباہ کیا گیا ہے۔

جلاؤ گھیراؤ کی تصاویر کی سوشل میڈیا پر بھرما ر ہے۔ایٹمی پاکستان کی یہ تصویر سب کے لیے پریشانی کا باعث ہونی چاہیے۔ سیاسی او ر مذہبی جماعتوں کو بھی سامنے آنا چاہیے۔ یہ عمران خان کا ملک نہیں بلکہ بائیس کروڑ عوام کی پناہ گا ہ ہے۔ عمران خان کو ایک طرف رکھیں اور ملک کی بہتری کے لیے ایک بیانیے کے ساتھ سامنے آئیں۔ اگر ہم صرف تماشا دیکھتے رہے تو حالات قابو سے باہر ہوتے جائیں گے۔ آخر میں مبارک عظیم آبادی

پوچھی کوئی تقصیر تو بولے کوئی تقصیر نہیں ہے

ہاتھ جوڑے تو کہا یہ کوئی تعزیر نہیں ہے

ترسیلات زر، کرنسی استحکام اور حج عمرہ بجٹ
اک تری بات کہ جس بات کی تردید محال

اک مرا خواب کہ جس خواب کی تعبیر نہیں ہے

تبصرے بند ہیں.