تحریک انصاف کی حکومت کا اب تک سب سے بڑا اسکینڈل صحت کا دیکھائی دے رہا۔ ویسے تو پیٹرولیم مصنوعات کا بحران اور پھر زائد قیمت پر خرید اس سے کہیں ہو سکتا ہے لیکن دوائیوں کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافے نے غریبوں کیا صاحب ثروت افراد کے بھی کڑاکے نکال دیے ہیں۔پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران ملک بھر میں فارمیسی کا کاروبار مشروم کی طرح پھیلا ہے۔ اسی طرح اسپتالوں کے بزنس میں بھی سرمایہ کاری کی جارہی ہیں۔ لگتا ہے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے عوام کو بیمار کیا جارہا ہے۔ مہنگائی کے مارے عوام کی جیبوں پر دن دہاڑے ڈاکے مارے جارہے ہیں۔ ایسا کہنا ہے اپنے عوام کی خدمت کے لیے امریکا سے اچھی ملازمت چھوڑ کے پاکستان آنے والے ایک ڈاکٹر کا، جو موجودہ صورت حال سے ذہنی تناو¿ کا شکار رہنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پچھلے ڈھائی سال کے اپنے تجربہ کی بنیاد پر بتایا کہ ادویات کی قیمتیں مہنگی ہونے کی وجہ سے خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے لوگوں نے پنساریوں کا رخ کر لیا ہے۔ ہربل دوائیوں کا استعمال بڑھ گیا اور پنساریوں کے کاروبار میں بھی تین گنا اضافہ ہو گیا۔ دور کورونا سنا مکھی کا نام منظر عام پر آیا تو پنساریوں کی دکانوں پر رش لگ گیا اور مہنگی دوائیوں کا توڑ لوگوں نے سستی ہربل میں ڈھونڈ لیا۔
اکنامکس کا اصول بھی یہی ہے کہ جب مہنگائی برداشت سے باہر ہوتی ہے تو لوگ سستی چیزوں کا رخ کرتے ہیں۔کم آمدنی والے بڑے اسپتال اور بڑے ڈاکٹرز کے پاس نہیں جاتے مہنگائی کی وجہ سے ایل او پیتھک ڈاکٹر اور دوائی مڈل کلاس کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ ہربل دوائیوں کے نقصانات بھی انہوں نے بات کی لیکن اس کا پھر کسی اگلے کالم میں ذکر کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب سے رخصت ہوا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنے آفس جی الیون کی راہ لی۔ (میری گاڑی ایک دوست لے گئے تھے) ٹیکسی کچھ دور چلی تھی کہ پروٹوکول کی وجہ سے سگنل بند تھا۔ مجھے بھی دیر ہورہی تھی کیونکہ آفس میں دوست انتظار کر رہے تھے۔ اس دوران ٹیکسی والے نے منہ ہی منہ میں بڑ بڑانا شروع کر دیا۔ خود کلامی کرتے ہوئے کہنے لگا بڑے کہتے تھے پروٹوکول ختم کر دیں گے، مہنگائی نیچے لائیں گے اور کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔
میں نے کہا بھائی صاحب کیا ہوا؟کہا کچھ نہیں بس ایسے ہی ان لوگوں نے پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔پھر میں نے پوچھا کس نے پریشان کر دیا؟کہا عمران خان اینڈ کمپنی نے، سر دیکھیں نا میں سرکاری ملازم ہوں اس حکومت سے پہلے میں نوکری کے ساتھ صرف چند گھنٹے ٹیکسی چلا کے بہتر زندگی گزار رہا تھا۔ جب سے عمرانی حکومت آئی ہے زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ دس گھنٹے ٹیکسی چلاتا ہوں لیکن گزارا پھر بھی نہیں ہو رہا۔ یکدم بھرائی ہوئی آواز میں ڈرائیور نے کہا این آر او نہیں دیں گے سن سن کے کان تھک گئے ہیں۔ کیا عمران خان نے وزیر صحت عامر کیانی کو این آر او نہیں دیا؟ اربوں روپے کا قوم کو ٹیکا لگا دیا۔ شور مچنے پر وزارت واپس لے لی اور پارٹی کا سیکرٹری بنا دیا۔
وزیراعظم عمران خان نے رحمت اللعالمین ﷺ سکالرشپ پروگرام کا افتتاح کر دیا
کیا یہ این آر او نہیں؟گاڑی ٹریفک میں رکی ہوئی ہے اب ڈارئیور نے نام گنوانے شروع کر دیے۔ ڈاکٹر عارف علوی، ندیم بابر، جہانگیر ترین، علیم خان، اعظم سواتی اور اسی طرح کتنے نام ہیں۔ڈرائیور نے پھر شعر بھی سنا ڈالا
جو شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی
ڈرائیور کے جذبات دیکھتے ہوئے میں نے کہا بھائی چھوڑو گاڑی چلاو¿ اللہ اللہ کر کے پروٹوکول گزر گیا۔ میںنے ادھر ادھر کی باتیں کر کے اس کا غصہ ٹھنڈا کیا اور اتنے میں آفس بھی آگیا۔آفس میں وکیل دوست بیٹھے قہوہ نوش فرما رہے تھے سلام دعا کے بعد جب میںنے انہیں ڈرائیور کے حکومت سے متعلق احساسات سنائے تو وہ بھی شروع ہوگئے۔ ندیم بھائی بس یہ صرف ٹیکسی ڈرائیور کے جذبات نہیں بلکہ پوری قوم ایسا ہی سوچ رہی ہے۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کیا صورت حال اتنی خراب ہے کہ لوگوں سے بھی پوچھنا پڑے گا کہ کیا حال ہیں؟ بات یہ ہے کہ لوگ اتنے بے حس اور حالات کے عادی ہو چکے ہیں کہ اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانے کو بھی تیار نہیں۔ لگتا ہے لوگ بھی کرپٹ ہو چکے ہیں۔ پیٹرول پمپ کا حال کوئی نہیں پیٹرول پمپ ہی کی مثال لیں میں پشاور سے آیا ہوں 2 ہزار کا پیٹرول ڈلوایا ہے ابھی ٹول پلازہ نہیں آیا کہ لائٹ جل گئی۔ اگر میٹر میں گڑ بڑ نہ کی گئی ہو تو اسلام آباد تک آرام سے پہنچ جاتے ہیں شاید ہی کسی جگہ پر پورا پیٹرول ڈالا جاتا ہو۔ڈرائیور کو پیسے دیں کہ وہ گاڑی میں پیٹرول بھرواکے لے آئے تو اس کی بھی الگ کہانی ہے۔ چند سیکنڈ چپ ہوئے پھر کہا پیٹرول تو ڈرائیورز ایسے پیتے ہیں جیسے کہ دودھ پی رہے ہوں اپنا حق سمجھ کر صفایا کر لیتے ہیں۔
اسی طرح اگر پٹواری کی بات کریں تو پٹواری کو کرپٹ اسی حد تک کیا جاتا ہے جتنی رشوت دینے والوں میں سکت ہوتی ہے۔اس دوران آفس بوائے ضمیر کمرے میں داخل ہوا اور گلاس میں پانی ڈالنے لگا۔ گلاس کے بھرتے ہوئے اس کے اندر کا غبار بھی باہر نکل آیا اور کہنے لگا سرجی آپ لوگ کیوں کچھ نہیں کرتے۔وکیل دوست نے پوچھا کیا کریں بھائی؟ ضمیر نے کہا جان چھڑائیں اس حکومت سے جس کی نہ رکنے والی مہنگائی نے ہماری کمر توڑ دی ہے۔ ایسی نااہل حکومت سے فوری جان جھڑانا ہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ بھنور میں پھنسی کشتی کنارے پر لگانے کے لیے گفتار کے غازیوں کے بجائے تجربہ کار ملاح کو لایا جائے جو باتیں کم اور اپنا کام زیادہ کرے۔ضمیر کی باتیں سن کر وکیل کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا پھر کہا واقعی بھئی معیشت بہتر بنانے اور کرپٹ عناصر کے خلاف بے رحمانہ کارروائی کے لیے تجربہ کار افراد پر مشتمل قومی حکومت بنانی ہو گی۔ ان نااہلوں سے فوری طور پر جان نہ چھڑوائی گئی تو اس کا خمیازہ ہمارے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو بھی ادا کرنا پڑے گا۔شاعر کے اس شعر نے بھی عوام کے جذبات کی خوب ترجمانی کی ہے۔
فریضہ زکوٰۃ اور رمضان المبارک
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
تبصرے بند ہیں.