بدلہ چکانے کا وقت آن پہنچا

186

کرونا وائرس سے پوری دنیا میں جہاں جانی نقصان بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے وہیں ایک بڑے معاشی بحران کے سر اٹھانے کی خبریں بھی زیر گردش ہیں۔ ایک ایسا معاشی بحران جو 2008 کے بحران سے کہیں زیادہ خطر ناک اور 1990 کے بعد پہلی دفعہ غربت کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ Oxfam International کی رپورٹ Dignity Not Destitution میں اس وباکے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں کے تقریبا بند ہو جانے پر اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ نصف ارب یا پوری دنیا کی آبادی کا 8 فیصد مزید غربت کا شکار ہو سکتا ہے۔ کنگز کالج لندن کے شعبہ بین الاقوامی ترقی کے پروفیسر”اینڈی سمنر” نے کہا : کووڈ 19 عالمی غربت میں بہت زیادہ اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ درحقیقت یہ دنیا کو دس سال اور کچھ خطوں کو 30 سال پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن(ILO) کے مطابق پوری دنیا میں 3.3 بیلین ملازموں میں سے 81 فیصد ملازم کلی یا جزی طور پر کام کرنے کی جگہ بند ہونے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

آکسفیم انٹرنیشنل کے عبوری ایگزیکٹو ڈائریکٹر” جوز ماریا ویرا“نے کہا: وبائی مرض کا تباہ کن معاشی نتیجہ دنیا بھر میں محسوس کیا جارہا ہے۔ لیکن غریب ممالک کے غریب لوگ جو پہلے ہی اپنا گزارا بڑی مشکل سے کر رہے ہیں ان کے لئے کوئی حفاظتی اقدام نہیں کئے گئے۔ انہوں نے G20 کے وزرائے خزانہ،IMF اور ورلڈ بینک سے غریب ترقی پذیر ممالک کی مدد کی اپیل کی اور 2020 کے لئے ان کے قرضوں کو منسوخ کرنے کا بھی کہا۔آکسفیم نے رواں ہفتے ورلڈ بینک، ائی ایم ایف اور جی20 کے وزارائے خزانہ کے درمیان منعقد ہونے والی اہم میٹنگ سے قبل عالمی راہنماؤں سے غریب ممالک اور غریب طبقات کو بچانے کے لئے ایک معاشی ریسکیو پیکج کا مطالبہ بھی کیا ۔

اسی تناظر میں ملک پاکستان کی بات ہو جائے جو غریب ممالک کی درجہ بندی میں درجہ 54 پر موجود ہے۔ مزید ترقی یا تنزلی کا حتمی فیصلہ آنے والے دن اور حالات کریں گے۔ بین الاقوامی سطح پر جو معاملات طہ ہوں گے سو ہوں گے۔ لیکن فی الوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی سطح پر ہم غربا کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں۔ ریلیف فنڈ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہمارے ملک کا متوسط اور مالدار طبقہ اپنی خواہشات کو کچھ عرصے کے لئے ترک کر کے غریب کی ضرورت پوری کرنے میں میدان میں اتر جائے، تو ان شاء اللہ ہمارا ملک اس بحران سے کافی حد تک نمٹنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اگر ہم ہفتے میں اعلی قسم کا کھانا کھانے کے عادی ہیں، تو کچھ دنوں کے لئے اپنی اس عادت میں خلل ڈال کر اپنے اعلی کھانے کے خرچ میں سے کچھ غریب کے لئے نکال لیں، تو کسی غریب کا بیٹا بھوک کے مارے سسک سسک کر سونے سے بچ جائے گا۔ کسی غریب کی ماں، بیٹی سڑکوں پر مانگنے کے بجائے اپنی دہلیز پر عزت سے ایک وقت کا کھانا حاصل کر لے تو اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے۔

ہم مسلمان ہیں ہم نے انسانیت کی بقا کو مادیت کی نظر سے نہیں دیکھنا ۔ لیکن اپنے دماغ کے کسی کونے میں یہ بات رکھنا بھی نہایت اہم ہوگا کہ اگر آج ہماری فیکٹریوں میں غریب نا ہوتا، تو ہماری اولاد بیکن ہاؤس نا جاسکتی۔ اگر غریب نا ہوتا تو ہمارے بڑے بڑے مالوں کے اندر شیشے صاف کرنے والے ہم خود ہی ہوتے۔ اگر یہ غریب لوگ نہ ہوتے تو آج کوئی بھی مال دار اپنی جاہ و حشم پر فخر نا کر سکتا ہے۔ وہ کسی محفل می ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کسی مہنگےصوفے پر نا بیٹھ سکتا۔ امراکی خدمت کرنے والاکوئی نا ہوتا ۔ کوئی نوکر اور مزدور نا ہوتا ۔ خود ہی آقا اور غلام ہوتے۔لیکن اس غریب نے ہمیں معزز بنایا ۔ ان غربا کی وجہ سے امیر چوہدری بنے، سائیں اور میاں بنے، ملک اور خان بنے ، سردار اور سکندر بنے۔

شام میں دھنسنے کا خطرہ
آج پوری دنیا پر چھائی یہ وبا امیر طبقہ کے لئے غربا کے احسان کا بدلہ چکانے کا وقت لے آئی ہے۔ آج غربا کو امرا کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ کسی کو بھوک سے نہیں مارتا۔ لیکن کچھ چیزیں وہ مخلوق کو اپنا نائب بنا کر سپرد کر دیتا ہے ، تا کہ جان سکے کہ کون کتنےپانی میں ہے۔ اللہ نے یہ دنیا آزمائش کے لئے بنائی ہے ، اس میں یہ گنجائش رکھی ہے کہ کوئی ظلم کرنا چاہے یا انصاف، نیکی کرنا چاہے یا بدی وہ اپنے دائرہ اختیار میں کر سکتا ہے۔ جو لوگ نیکی کرتے ہیں، عدل سے کام لیتے ہیں اللہ تعالی اپنی جنت کی رونقوں کے لئے انہیں منتخب کر لیتے ہیں۔

غربا کی مدد کے لئے وزارت خزانہ کا ہمارے انڈر ہونا ضرور نہیں۔ بلکہ حسب استطاعت امداد سے بھی احادیث میں ذکر فضیلت کے مستحقین میں ہمارا نام درج ہو سکتا ہے۔احادیث مبارکہ کا مفہوم ہے آپؐ نے فرمایا: روزانہ صبح کے وقت2 فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ایک دعا کرتا ہے : اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما۔ دوسرا دعا کرتا ہے : اے اللہ! مال کو روک کر رکھنے والے کے مال کو برباد کر۔ (بخاری، مسلم)۔ ایک اور مقام پر فرمایا: مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ( بخاری،مسلم)۔ ایک روایت میں ذکر ہے: تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (بخاری)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ کچھ مانگنے کے لیے میرے پاس آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا،جو میں نے اس عورت کو دے دی، اس عورت نے وہ کھجور دونوں بیٹیوں کو تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی۔ نبی اکرمؐ کے تشریف لانے پر میں نے اس واقعہ کا ذکرکیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا بیٹیوں کی وجہ سے امتحان لیا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بنیں گی۔

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)

تبصرے بند ہیں.