چور مچائے شور

16

کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں آج تک کی تاریخ میں اگر کسی پر کرپشن ثابت ہوئی ہے تو وہ اس شخص پر ثابت ہوئی ہے کہ جو خود صادق اور امین بن کر باقی سب کو چور اور ڈاکو کہتا تھا ۔خدا خدا کر کے آخر ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ جو 21جون سے محفوظ تھا سامنے آ ہی گیا ۔اس کیس کو کسی اور نے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014میں الیکشن کمیشن میں دائر کیا تھا ۔اس کی کل 75سماعتیں ہوئیں اور کیس کے دوران تحریک انصاف نے 6مرتبہ کیس التوا کی درخواستیں دیں جبکہ 9وکیل بدلے گئے اور 12مرتبہ تحریک انصاف کی طرف سے اس کیس کی کارروائی کو خفیہ رکھنے کی استدعا کی گئی ۔حقائق کی جانچ کے لئے الیکشن کمیشن نے جو سکروٹنی کمیٹی بنائی اس کے 95 اجلاس ہوئے جن میں سے 24کے اندر تحریک انصاف کی جانب سے التوا کی درخواست کی گئی ۔ الیکشن کمیشن نے اپنے تین رکنی بینچ کے متفقہ فیصلہ میں قرار دیا کہ تحریک انصاف کو آئین پاکستان کے خلاف غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ ہوئی ہے ۔ اس میں 34انفرادی غیر ملکیوں سے جبکہ 351غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈنگ ہوئی ۔جو تحریک انصاف کے 16اکاؤنٹس میں آئی جس میں سے 8اکاؤنٹس کو خود تحریک انصاف نے تسلیم کیا کہ یہ ان کے ہیں ۔الیکشن کمیشن کے فیصلہ میں بتایا گیا ہے کہ پارٹی اکاؤنٹس کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں پانچ سال تک جو فارم ون جو جمع کرایا گیا تھا وہ غلط اور جھوٹ ثابت ہوا ۔الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے مطابق یہ بات آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی ہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کو شو کاز نوٹس بھی جاری کر دیا گیا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ اس غیر قانونی ممنوعہ فنڈنگ کو ضبط کر لیا جائے ۔اس کے علاوہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پانچ سال تک جو بیان حلفی جمع کرائے گئے وہ بھی جھوٹ پر مبنی تھے ۔تحریک انصاف کو امریکہ ، آسٹریلیا اور یو اے ای سے فارن فنڈنگ ہوئی جس میں ہندوستانی شہری کی جانب سے بھی فنڈنگ کی گئی ۔ عارف نقوی جو عمران خان کے دوست اور امریکہ میں منی لانڈرنگ کیس کے اہم کردار ہیں ان کی کمپنی ووٹن کرکٹ کی جانب سے بھی 21لاکھ 21ہزار 5 سو کی فنڈنگ کی گئی ۔ کل ممنوعہ فنڈنگ کی رقم کم و بیش ایک سو پچاس کروڑ روپے ہے ۔ اس ساری ممنوعہ فنڈنگ کو تحریک انصاف نے وصول کیا جو خلاف آئین و قانون تھا اور اسے خلاف آئین و قانون چھپایا بھی گیا جو الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے ثابت ہو گیا ۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس اور اس پر الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی مختصر تفصیل قارئین کے لئے بیان کر دی ہے ۔ ڈھٹائی اور بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ اس فیصلہ کے فوری بعد تحریک انصاف کے رہنما پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آج پی ڈی ایم کے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی لگی اور نہ ہی عمران خان نا اہل ہوئے بلکہ صرف ایک شو کاز نوٹس جاری ہوا جس کا ہم جواب دیں گے لیکن اس بار ان کے چہرے کے تاثرات ان کی باتوں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا افسانہ
ہم پہلے بھی انہی تحریروں میں عرض کر چکے ہیں کہ تحریک انصاف کی پوری قیادت عمران خان سمیت جب اور جہاں جو جھوٹ فٹ بیٹھے بول دیتے ہیں اور اب تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ اس جماعت کے لوگ جو بات کہتے ہیں اس کا سامنا بھی نہیں کر سکتے اس کی بڑی واضح مثال ایک صحافی کے سوال پر خان صاحب کا غصہ کی حالت میں پشاور میں پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے جانا اور اب دو دن پہلے عارف نقوی کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایک سوال پر نہ صرف یہ کہ خان صاحب نے ایک مرتبہ پھر منفی رویہ اپناتے ہوئے جواب نہیں دیا بلکہ انتہائی اشتعال کے عالم میں کہا کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دیں گے اور ان کی سکیورٹی نے اس صحافی کو دھکے بھی دیئے تو یہ لوگ اپنے ہم خیال صحافیوں کے سامنے تو جھوٹ سچ بول لیتے ہیں کہ انھوں نے کوئی کاؤنٹر سوال نہیں کرنا ہوتا لیکن جہاں کوئی سوال کرنے والا ہو تو اپنے بیانیہ کو تو چھوڑیں یہ
لوگ تو اپنے کہے کا دفاع نہیں کر سکتے ۔الیکشن کمیشن نے جس واضح انداز میں تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو فارن فنڈنگ کے ممنوعہ کیس میں ذمہ دار قرار دیا ہے تو اس کے بعد وفاقی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے خلاف آئین کے آرٹیکل17کے تحت کارروائی کرے اس لئے کہ اگر میاں نواز شریف جو پاکستان کے تین بار کے وزیراعظم ہیں انہیں کسی بد عنوانی نہیں بلکہ فقط اقامہ کی بنیاد پر دو چار سال کے لئے نہیں بلکہ تا حیات نا اہل قرار دے کر ان پر ہمیشہ کے لئے پارلیمانی سیاست کے دروازے بند ہو سکتے ہیں تو عمران خان پر بد عنوانی کا کیس ثابت ہونے کے بعد ان پر قانون کا اطلاق کیوں نہیں ہو سکتا ۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئین کے آرٹیکل 17کی شق تین کو دیکھ لیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو ۔
’’ہر سیاسی جماعت قانون کے مطابق اپنے مالی ذرائع کے ماخذ کے لئے جواب دہ ہو گی ‘‘
کوئی پیچیدہ یا سمجھ میں نہ آنے والی بات نہیں بلکہ بات بڑی سیدھی سمجھ میں آنے والی ہے کہ خود عمران خان ہر جگہ اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ جس ملک جس معاشرے میں دو قانون ہوں کسی کے لئے کچھ اور کسی کے لئے کچھ وہ ملک اور معاشرے نا انصافی کا شکار ہو کر کبھی ترقی نہیں کر سکتے دوسرا خان صاحب تو شروع دن سے ایک ہی بیانیہ لے کر چلے ہیں اور وہ ہے کرپشن کے خلاف جدوجہد ۔ اب اگر خان صاحب اور خود ان کی جماعت پر کرپشن ثابت ہو رہی ہے تو ان کے خلاف انہی کے بیانیہ کے مطابق سلوک ہونا چاہئے اور ایک انتہائی اہم بات کہ اس کیس میں جو کچھ بھی ثابت ہوا وہ 2014تک کا ہے اور اس کے بعد کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے لیکن اس وقت تک جو فیصلہ آ چکا ہے اب الیکشن کمیشن کے بعد بنیادی ذمہ داری وفاقی حکومت کی بنتی ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت نے کہا ہے کہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا اور یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ حکومت اس کیس کے فیصلہ پر آئین اور قانون کے مطابق عمل کرے گی۔ اسی کیس کے حوالے سے ایک اور اہم بات کہ دوسروں کو غیر ملکی ایجنٹ اور سازشی اور موجودہ حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہنے والوں نے دیگر ممالک کے علاوہ  امریکہ کی 167، برطانیہ کی28، کینیڈا کی 13، ہندوستان کی2اور فرانس کی ایک کمپنی سمیت دیگر ممالک کی کمپنیوں سے بھی غیر قانونی ممنوعہ فنڈنگ نہ صرف یہ کہ وصول کی بلکہ گذشتہ آٹھ سال سے ان کا دفاع بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔اس فیصلہ سے کچھ اور ہوا ہے یا نہیں لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ ہر صاحب شعور انسان کو علم ضرور ہو گیا ہے کہ عمران خان اور پوری تحریک انصاف پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بیس میں سے پندرہ نشستیں جیتنے کے باوجود بھی چیف الیکشن کمشنر کا استعفیٰ کیوں مانگ رہے تھے ۔

تبصرے بند ہیں.