عدم اعتماد اور میڈیا کا کردار

16

وطن عزیز میں عدم اعتماد کا ایک بار پھر شور و غوغا ہے اس کا فیصلہ جو بھی ہو وہ تو ووٹنگ کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ لیکن ایسے میں بعض میڈیا ہاؤسز بھی اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔ ہیجان پیدا کرنے کے لیے اپنی اپنی پسند کی خبریں تجزیے دے کر پوری قوم کو شدید کرب میں مبتلا کر رہا ہے۔ میڈیا دھڑلے سے تحریک عدم اعتماد کے حامی ممبران اسمبلی کے وفاداریاں تبدیل کرنے کے مکروہ عمل کو گلیمرائز کر کے قومی میڈیا پر ببانگ دُہل نشر کر رہا ہے۔ ایسے ممبران کے اتحادی اور بعض میڈیا ہاؤسز بھی شاباشی دے رہے ہیں لیکن اس اعتراف جرم پر ادارے خاموش ہں، نوٹس لینا تو درکنار اس حرکت کو نظر انداز کر رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ میں نہیں مانتا کہ میڈیا کا کام صرف رپورٹ کرنا ہے جبکہ اصل کام ذمہ داری سے رپورٹ کرنا ہے جس کو اس سیاسی جنگ میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ہر فریق مختلف بولیاں بول رہا ہے بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کی بھی بہتات ہے۔ ماضی میں بھی تحاریک عدم اعتماد آئیں لیکن جو تقسیم قوم میں اس وقت نظر آ رہی ہے وہ کبھی نہ دیکھی گئی۔ موجودہ عدم اعتماد کی تحریک میں سب سے بڑی تقسیم میڈیا میں دیکھی گئی ہے۔ گو کہ ماضی میں ان تحاریک کے دوران بھی میڈیا ڈھکے چھپے انداز میں پارٹی بنتا نظر آتا تھا لیکن اس کی تقسیم اتنی واضح نہ تھی۔ اس کی شاید ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس وقت پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نہ تھا۔ عوام تک معلومات کا واحد ذریعہ اخبارات یا سرکاری میڈیا ہوا کرتا تھا۔ آج کل کے دور میں صورتحال ماضی کے حوالے سے برعکس ہے عوام تک انفارمیشن یا ڈس انفارمیشن سوشل میڈیا کی وجہ سے روشنی کی رفتار سے زیادہ سرعت تک پہنچتی ہیں۔ موجودہ تحریک عدم اعتماد اور عام حالات میں بھی دیکھا گیا کہ اس دور میں کچھ میڈیا ہاؤسز تو اپوزیشن سے کہیں زیادہ باقاعدہ پارٹی بنے نظر آتے ہیں۔ اسی
طرح صحافی بھی تقسیم نظر آتے ہیں۔ ایک اینکر نے تو تمام حدیں عبور کرتے ہوئے لائیو پروگرام میں وزیر اعظم کو گریبان سے پکڑ کر اتارنے کا بھی کہہ دیا لیکن وہ آج بھی ٹی وی سکرین پر براجمان ہیں۔ کچھ ٹی وی اینکرز، جو طویل پابندی کے بعد سکرین پر جلوہ افروز ہو رہے ہیں، کا نشانہ بھی حکومت وقت اور تمام نوازشات اپوزیشن پر ہیں۔ کچھ مخصوص میڈیا ہاؤسز نے تو اخیر کر دی ہے۔ ان کی خبریں اور پروگرام دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ حکومتی یا اپوزیشن کے ترجمان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی اس دوڑ میں سچی خبر اور متوازن تجزیہ کہیں چھپ سا گیا ہے۔ جو اینکرز صحافت کی بھٹی سے نکل کر آئے ہیں ان کو تو قدرے احساس ہے لیکن بغیر کسی صحافیانہ تجربے کے پیراشوٹر اینکرز نے جو اَت مچائی ہوئی ہے اس پر الاماں و الحفیظ ہی کہنا بنتا ہے۔ ٹی وی پروگرام ہو یا اخبارات کے صفحات ہر چیز تعصب سے لبریز نظر آتی ہے۔ ایسے میں قارئین اور ناظرین مخمصے کا شکار ہیں کہ کس کا اعتبار کریں۔ بعض اینکرز کے چہرے کے تاثرات اور انداز بیان سے ہی لگتا ہے کہ انہیں اپوزیشن یا حکومت سے موجودہ صورتحال کا زیادہ قلق ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ریٹنگ کے حصول کے چکر میں اینکرز ہر حد پار کرنے کے درپے ہیں۔ لے دے کر نیوز بلیٹن رہ گئے تھے لیکن ان پر بریکنگ نیوز کے چکر میں صحافت کا جنازہ دھوم سے نکالا جاتا ہے۔
غنیمت ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی سہی کچھ چینل اور اخبارات اس ریٹنگ کی دوڑ سے ہٹ کر متوازن خبریں اور تجزیاتی پروگرام دے رہے ہیں۔ لیکن ہمارے عوام بھی شاید چٹپٹی خبروں اور تجزیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ البتہ کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ سیاسی تقسیم نے عوام کو فیک نیوز کا عادی کر دیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سچ ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے اور جھوٹ بے دام بکتا ہے۔
دوسری طرف حکومتی ممبر قومی اسمبلی کے انداز بھی نرالے ہیں ایک اینکر کو محبوس کرنے کے بعد اس کو انٹرویو ہی ضائع کرنے کی شرط پر رہائی ملی۔ اس پر بھی خاموشی ہی رہی۔ چونکہ اینکر کا ٹی وی بھی قابل ذکر تھا اور نہ وہ خود، اس لیے میڈیا کی ٹریڈ یونینز نے بھی اس واقعہ کو اتنی ہی اہمیت دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک آدھ کو نکال کر میڈیا ہاؤسز نے اپنی اپنی یونینز رکھی ہوئی ہیں اور جو تب ہی جوش مارتی ہیں جب ان کے پسندیدہ اداروں پر بُرا وقت آتا ہے۔ اس مقصد کے لیے یونین لیڈرز کو بھاری تنخواہوں پر ملازم بھی رکھا جاتا ہے۔
ہارس ٹریڈنگ کے بادشاہ سابق صدر آصف علی زرداری نے سندھ ہاؤس میں وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو دھڑلے سے رکھا ہے اور پھر شرمندگی کی رمق بھی کوئی نہ ہے۔ اس پر حکومتی جماعت تحریک انصاف کے ورکرز دو ایم این اے سمت سندھ ہاؤس پر چڑھ دوڑے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ذمہ داری تو شیخ رشید پر آتی ہے کہ ریڈ زون میں کس طرح پی ٹی آئی کے ورکر داخل ہو گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں انصار الاسلام کے جتھوں کے داخلے پر اسلام آباد کی انتظامیہ بشمول پولیس کے اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی ہوتی لیکن سندھ ہاؤس پر حملہ آوروں کو نہ روکنے پر ایک سپاہی تک کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی، جس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ کو سندھ ہاؤس پر حملہ آوروں کو نہ روکنے والے افسران کے خلاف بھی اسی طرح کارروائی کرنا چاہیے تھی۔
ایک بات البتہ خوش آئند ہے کہ لوٹوں کو پہلی بار عوامی مزاحمت اور ملامت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پہلی بار ان کو ضمیر فروشی پر عوامی ردعمل کا سامنا ہے۔ یہ بات یقیناً خوش آئند ہے لیکن اس میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مہذب انداز میں بھی احتجاج کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کیا جا سکتا ہے اور یہی طریقہ اپنانا چاہیے۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔

تبصرے بند ہیں.