بزنس کمیونٹی ملک بچا سکتی ہے

18

بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پاکستان سے متعلق بھارتی رویہ روایتی ہٹ دھرمی اور ہندوتوا ذہنیت کا عکاس رہا۔ ایک کم ظرف دشمن سے ایسے ہی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس بار بھارتی وزیر خارجہ کا پاکستان سے متعلق احساس تفاخر بہت نمایاں تھا۔ جے شنکر کا یہ کہنا کہ پاکستان کی سیاسی ساکھ اس کی معیشت کی طرح نیچے جارہی ہے۔ پاکستان جیسے ملک کا جی 20 جیسے معاملات سے کیا تعلق؟ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ لیکن پاکستان کو یہ کڑوے گھونٹ پینا پڑے۔ اگر پاکستان کی معاشی صورتحال اس قدر خراب نہ ہوتی۔ ہم آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک کر نہ کھڑے ہوتے تو شاید بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے اس فضول بیان کا منہ توڑ جواب دیا جا سکتا تھا۔ کاش اس ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت جو 75 برسوں سے ملک پر برسر اقتدار ہیں، مصلحتوں سے بالاتر ہوش مند اور دور اندیش فیصلے کرتے تو اپنے خداد وسائل اور افرادی قوت کی بنیاد پر پاکستان عظیم ممالک کی فہرست میں کھڑا ہوتا۔ مقام افسوس ہے کہ ہماری غیر مستحکم سیاسی صورتحال کے باعث چینی وزیر خارجہ اور یورپی یونین کو بھی تشویش کا اظہار کرنا پڑا ہے۔ بطور قوم ہمیں اپنے غیر سنجیدہ رویوں پر غور کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہمسائے اور بین الاقوامی برادری کیوں ہم پر اعتماد کرے؟ یہ سب ہمارے سیاسی اور معاشی فیصلوں پر منحصر ہے۔ 7 مئی کو لاہور کے مقامی ہوٹل میں پاکستان کے مقامی اور اوورسیز پاکستانی بزنس مینوں اور صحافیوں کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ راؤنڈ ٹیبل گفتگو کا ایک ہی موضوع تھا کہ پاکستان کو موجودہ معاشی بھنور سے کیسے نکالا جائے۔ گفتگو کے آغاز میں فرانس میں مقیم پاکستانی نژاد فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی نے پاکستان میں کاروبار دوست ماحول کی عدم دستیابی پر گفتگو کی۔ ان کا بنیادی سوال تھا کہ کیا یہاں فارن انوسٹمنٹ کا ماحول موجود ہے؟ محمود بھٹی کا کہنا تھا کہ فارنرز تو درکنار خود پاکستانی اپنے ملک میں انوسٹمنٹ کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اگر کوئی غلطی سے انوسٹمنٹ کر لے یا اس ملک کے لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے تو اسے تحفظ دینے کے بجائے پورا نظام مل کر اسے ذلیل کرتا ہے۔ اپنی کہانی سناتے ہوئے محمود بھٹی کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے۔ وہ اپنی یتیمی اور غربت کے دنوں کا درد ہلکا کرنے کے لئے پاکستان میں ایک آرفن ہاؤس بنانا چاہتے ہیں۔ جس کے لئے انھوں نے لاہور میں ایک مربع زمین خریدی۔ اب اس زمین پر ان کا اپنا وکیل قابض ہے۔ انھیں دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ محمود بھٹی کو ہر کچھ عرصے بعد پاکستانی عدالتوں میں پیش ہونے کے لئے فرانس سے پاکستان کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ وکلا کی بھاری فیسیں ادا کرتا، عدالتوں میں انصاف کے لئے دھکے کھاتا یہ شخص آج بھی پاکستان سے محبت کرتا ہے۔ ہمیں پاکستان سے محبت کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا ہو گا۔ انھیں انصاف کے ساتھ عزت دینے کی ضرورت ہے۔ میں اپنے کئی کالمز میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ کہ ائر پورٹ پر اوورسیز پاکستانیوں کے لئے سپیشل کاؤنٹر بنائے جائیں۔ انھیں بہترین پروٹوکول دیا جائے۔یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کو ایکسپورٹس کے برابر قیمتی زرمبادلہ بھجواتے ہیں۔اگر انھیں عزت اور انصاف کا یقین دلائیں تو مجھے پورا یقین ہے کہ یہ پاکستان میں انوسٹمنٹ کرنے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن اگر محمود بھٹی جیسی مثالیں موجود ہوں گی تو غیر تو دور کی بات اپنے بھی ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔ اکثریتی شرکا کی رائے تھی کہ پاکستان میں موجود بزنس کمیونٹی کو معیشت کی بہتری کے لئے آگے آکر کردار ادا کرنا چاہئے۔ تھنک ٹینک پاکستان ففتھ پلر کے چیئرمین عابد علی بٹ نے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مسائل کی جڑ دراصل پلاننگ کا فقدان ہے۔ پاکستان میں کاروبار کو مکمل طور پر پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جانا چاہئے۔ بزنس کمیونٹی کی نمائندگی پالیسی کی تشکیل سے لے کر عملدرآمد تک ہوگی تو ملک میں بزنس کو فروغ دینا آسان ہوگا۔ ورنہ ان 75 برسوں میں بیوروکریٹس اور کاروباری تجربہ نہ رکھنے والے پارلیمانی نمائندوں اب تک جو پالیسیاں تشکیل دی ہیں ان سے کاروبار کرنا آسان کے بجائے مشکل بنا دیا گیا ہے۔ یاد رکھیں ہم اپنے بزنس مینوں کو جتنی سہولیات فراہم کریں گے یہ ملک اتنی ہی تیزی سے ترقی کرے گا۔ آج بھی وقت نہیں گزرا اگر ہم چینی ماڈل کی طرز پر کام شروع کریں تو مہینوں میں ہی ہمارے معاشی حالات سدھر سکتے ہیں۔ موجودہ چین کو چین بنانے میں وہاں کی بزنس کمیونٹی کا بڑا ہاتھ ہے۔ 70 کی دہائی میں چینی صدر مہینے میں ایک پورا دن بزنس کمیونٹی کے مسائل سنتے تھے۔ اس موقع پر پوری متعلقہ بیورو کریسی، وزراء اور ٹیکس حکام موجود ہوتے تھے۔ ہر بزنس مین کا مسئلہ موقع پر حل کر دیا جا تا تھا۔ پورے ماہ کی رپورٹ کو پالیسی کی شکل دی جاتی تھی کہ اس طرح کے کسی بھی مسئلے کو دور دراز کے علاقوں میں بھی اسی طرز پر حل کیا جائے۔ اس ایک عمل نے چین کو کہاں سے کہاں لاکھڑا کیا ہے۔ آج وہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اور سرحد کے اِس پار ہم آج بھی عالمی اداروں اور دوست ممالک سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا لیکن ہماری سیاسی جماعتیں باہمی اقتدار کی کشمکش میں دست و گریباں ہیں۔ اقتدار سے باہر ہر جماعت اداروں کی توہین، بے توقیری اور پامالی کے عمل میں ملوث ہے۔ کیا ریاستیں ایسے ترقی کرتی ہیں؟ پارٹی سربراہوں اور لیڈرز کی تقریریں سنیں تو ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ذہنوں میں سوال ابھرتے ہیں کیا یہ لوگ اس ملک کی ڈوبتی کشتی کو پار لگائیں گے؟ میں چونکہ خود لاہور چیمبر آف کامرس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر رہ چکا ہوں۔ یہاں سال میں ایک مرتبہ ڈنر پر وزیر اعظم سے آدھے گھنٹے کی ملاقات ہوتی ہے۔ اس میں بھی صرف فوٹو سیشن ہوتا ہے۔ لاہور چیمبر میں وائس چیئرمین کے امیدوار اور پائنیر بزنس گروپ کے چیئرمین علی حسام اصغر جو کہ پاکستان کے بہت بڑے رائس ایکسپورٹر ہیں۔ ان کے خیال میں اگر حکومت بزنس کمیونٹی کو فری ہینڈ دے تو یہ نہ صرف ملک کا قرض اتار سکتے ہیں بلکہ پاکستان کو حقیقی ترقی کی شاہراہ پر لاسکتے ہیں۔ اس وقت کو ملک بزنس دوست پالیسیوں اور حکومتی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ اگر حکومت ایک قدم بڑھائے تو بزنس کمیونٹی ہر طرح سے ساتھ دینے کو تیار بیٹھی ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری بزنس کمیونٹی جو کہ اس ملک کا پانچواں ستون ہے۔ حکومت ہر قدم ان کو ساتھ لے کر چلے۔ لیکن اس سے پہلے حکومت اور بیوروکریسی اور تاجروں میں بیٹھے کرپٹ مافیاز کا صفایا کرنا ہو گا۔ جنھوں میں اپنے معمولی مفادات کی خاطر پورے ملک کا مفاد داؤ پر لگا رکھا ہے۔ جب تک یہ مافیاز موجود ہیں یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ہم کب تک غیروں کے طعنے سنتے رہیں گے؟ کب تک ہمارے بچوں کا مستقبل غیر محفوظ رہے گا؟ اس پہلے کہ دنیا ہمارے مستقبل سے مایوس ہو جائے اور ہمارے متعلق کوئی فیصلہ کرے۔ ہمیں خود اپنے فیصلے کرنا ہوں گے۔ چاہے اس کے لئے کیسی بھی قربانی کی ضرورت ہو تو دریغ نہ کیا جائے۔ معاشی خوشحالی ہی باعزت راستہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.